Maktaba Wahhabi

541 - 579
عمل کرنا واجب ہے، جیسے ایک نابینے کی حدیث سنن میں وارد ہوئی ہے، جس میں یہ الفاظ منقول ہیں: (( یَا مُحَمَّدُ إِنِّيْ أَتَوَجَّہُ بِکَ إِلٰی رَبِّيْ )) [1] [اے محمد! میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں] بعض اہلِ علم نے اسے ضعیف کہا ہے اور بعض نے حسن کہا ہے۔ یا جیسے حدیث: (( بِحَقِّ السَّائِلِیْنَ عَلَیْکَ )) [2] [رواہ أحمد والحاکم] [تجھ پر سوالیوں کا جو حق ہے، اس کے وسیلے سے] اسے بھی ائمہ حدیث ضعیف کہتے ہیں۔ اس لیے شریعت میں وارد امر پر اقتصار واکتفا کرنا احوط ہے، قیاس کو اس جگہ کوئی دخل نہ دے۔ یا جیسے اس چیز سے تبرک کرنا جسے صلحا نے ہاتھ لگایا یا استعمال کیا ہے، مگر اس جگہ تامل ہے، کیونکہ یہ محض قیاس ہے۔ جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کو نہیں پہنچی، گو قیاس کی نظر میں وہ مستحسن معلوم ہو، اس جگہ یہ دروازہ بند کرنا لازم ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’من استحسن فقد ابتدع‘‘ [جو اپنی رائے سے کسی چیز کو مستحسن سمجھے گا وہ مبتدع بن جائے گا] توحید کے مذہب میں جنابِ امام کی حمایت کے لیے سد ذرائع میں امام مالک کا مذہب اقوی المذاہب ہے، تا کہ ﴿یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ﴾[البقرۃ: ۱۶۵] کے مصداق نہ ہو، بلکہ ﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ﴾[البقرۃ: ۱۶۵] کا مصداق ٹھہرے۔ مومنوں نے اللہ وحدہ لا شریک کو انداد و اضداد سے منزہ پہچانا ہے اور اسی کو منعم، رحیم، رؤوف، ودود، کریم، لطیف، خالق اور رازق سمجھا ہے۔ انھیں صفات کمال کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ دوست رکھتے ہیں۔ اللّٰهم اجعل حبک أحب إلي من نفسي وأھلي و مالي ومن الماء البارد۔ مدعیان علم وعقل کو بے فائدہ اور بے ضرر لوگوں کی محبت پر اور ان کے ساتھ توسل کرنے پر ابھارنے والی چیز اہلِ علم کے ساتھ حسن ظن کا اتباع ہے۔ ابلیس نے تھوڑا تھوڑا درجہ بدرجہ انھیں اس کام پر لگایا، یہاں تک کہ انھیں اس توسل کی عادت ہو
Flag Counter