Maktaba Wahhabi

508 - 579
تو اس وقت وہ حجاب اٹھ جائیں گے اور سبحات متجلی ہوں گی۔ اسے ایک ایسی جگہ ہاتھ آئے گی جو زوال، احراق اور آفات سے مامون ہے۔ یہ صفات ان صفات کی طبیعت پر باقی نہ رہیں گی، بلکہ تجلی بھر بھر کر جس قدر ساغر سامنے آئیں گے، اتنی ہی اس کی طلبِ فریاد زیادہ ہو گی۔ اس پاک ذات کی شان کتنی بڑی ہے۔ آج دنیا میں دل اللہ تعالیٰ کو نظر ایمان سے دیکھتے ہیں۔ کل آخرت میں اسے آنکھیں دیکھیں گی۔ رویتِ باری تعالیٰ کے متعلق مندرجہ ذیل حدیث صحیح ہے: (( إِنَّکُمْ لَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَمَا تَرَوْنَ الْقَمَرَ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ لَا تُضَامُّوْنَ فِيْ رُؤْیَتِہٖ )) [1] [یقینا تم قیامت کے دن اپنے رب تعالیٰ کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح تم چودھویں رات کے چاند کو دیکھتے ہو، اس کے دیدار میں تم تکلیف محسوس نہ کرو گے] اس جگہ نظر کو نظر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے نہ کہ منظور کو منظور کے ساتھ۔ علما کی ایک جماعت کو دنیا میں علم یقین کا نصیب اور حصہ ملا ہے اور ایک دوسری ان سے اعلا رتبے والی جماعت کو عین الیقین سے نصیب اور حصہ حاصل ہے۔ جس طرح فرمایا ہے: ’’رَأی قَلْبِيْ رَبِّي‘‘[2] [میرے دل نے اپنے رب کو دیکھا ہے] حارثہ رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: ’’أصبحت مؤمنا حقا‘‘[3] [میں نے حق سچ مومن بن کر صبح کی ہے] یہ اس لیے کہ ان کو ایمان میں ایک ایسا رتبہ مکشوف ہوا جو علم کے رتبے کے سوا تھا۔ اسی مطالعے کی وجہ سے معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: ’’تعالوا حتی نؤمن ساعۃ‘‘[4] [آؤ! ہم ایک گھڑی ایمان لائیں] یہ ایمان کے تفاوت مراتب اور زیادت ونقصان پر دلیل ہے جس طرح بعض علما کا مذہب ہے۔ بعض کا مذہب یہ ہے کہ ایمان کم ہوتا ہے نہ زیادہ، ہر قائل کی کوئی نہ کوئی دلیل موجود ہے۔
Flag Counter