Maktaba Wahhabi

409 - 579
ازل سے ابد تک صرف ایک ہی آنِ واحد بسیط ہے جس میں کسی قسم کا تعدد نہیں ہے، کیونکہ حق تعالیٰ پر زمانہ جاری ہے اور نہ تقدم و تاخر کے احکام اس پر جاری ہو سکتے ہیں، لہٰذا اس کے علم میں اگر ہم معلومات کے ساتھ تعلق کا اثبات کریں تو وہ صرف ایک تعلق ہو گا جو تمام معلومات کے ساتھ متعلق ہے اور وہ تعلق بھی مجہول الکیفیت ہے یعنی اس تعلق کی کیفیت معلوم نہیں اور صفتِ علم کی طرح بے مثل ہے۔ ہم اس تصور کے استبعاد یعنی قیاس اور فہم سے دُور اور بعید ہونے کو ایک مثال کے ذریعے زائل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں ایک ’’کلمہ‘‘ کو اس کی مختلف اقسام، متفرق احوال اور مخالف اعتبارات سے جانتا ہے، لہٰذا اسی ایک وقت میں اس ’’کلمہ‘‘ کو اسم بھی جانتا ہے اور فعل بھی، حرف بھی اور ثلاثی بھی، رباعی بھی اور معرب بھی، مبنی بھی، متمکن اور غیر متمکن بھی، منصرف بھی اور غیر منصرف بھی، معرفہ بھی اور نکرہ بھی، ماضی بھی اور مستقبل بھی، امر بھی اور نہی بھی جانتا ہے، بلکہ اس شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ کہے کہ میں ’’کلمہ‘‘ کے تمام اقسام اور اعتبارات کو کلمہ کے آئینے میں بیک وقت تفصیل کے ساتھ دیکھتا ہوں، جبکہ ممکن کے علم میں بلکہ ممکن کی دید میں اضداد کا جمع ہونا متصور ہے تو پھر اس واجب تعالیٰ ﴿وَ لِلّٰہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی﴾[النحل: ۶۰] [اور اللہ کے لیے سب سے اونچی مثال ہے] کے علم میں یہ بات کس طرح بعید معلوم ہوتی ہے۔ اس جگہ اگرچہ بہ ظاہر جمع ضدین ہے، لیکن حقیقت میں ان کے درمیان تضاد مفقود ہے، کیونکہ اگرچہ حق تعالیٰ ’’زید‘‘ کو آنِ واحد میں موجود اور معدوم جانتا ہے، لیکن اسی آن میں یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے وجود کا وقت مثلاً ہزار سال سنہ ہجری کے بعد ہے اور س کے وجود سے عدمِ سابق کا وقت اس سال معین سے پہلے ہے اور اس کے عدم لاحق کا وقت گیارہ سو سال کے بعد ہے۔ لہٰذا حقیقت میں ان دونوں کے درمیان زمانے کی تبدیلی کی وجہ سے کوئی تضاد نہیں ہے آپ باقی احوال کو بھی اسی پر قیاس کر سکتے ہیں۔ اس تحقیق سے واضح ہو گیا کہ حق تعالیٰ کا علم اگرچہ تغیر پانے والی جزئیات سے متعلق ہو، لیکن اس کے علم میں تغیر کا شائبہ بھی راہ نہیں پاتا اور حدوث کا گمان اس کی صفت میں پیدا نہیں ہوتا، جیسا کہ فلاسفہ نے گمان کیا ہے، کیونکہ تغیر اسی صورت میں متصور ہو سکتا ہے جب کہ ایک کو دوسرے کے
Flag Counter