Maktaba Wahhabi

138 - 579
مستوی ہے۔[1] اس قول سے حنابلہ پر حجت تمام ہے۔ نیز استقرا سے بھی معلوم ہے کہ اصحابِ مذاہب اربعہ میں بالاتفاق سب کا یہی مذہب ہے، وللّٰہ الحمد۔کسی سے بھی صفتِ استوا کا انکار ہر گز منقول نہیں۔ اس کی کیفیت سب کے نزدیک مجہول ہے اور اس سے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔ پانچواں قول: امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے کتاب ’’اختلاف المصلین‘‘ میں لکھا ہے: اگر کوئی پوچھے کہ تم استوا سے متعلق کیا کہتے ہو تو ہم یہ کہیں گے کہ بے شک اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، جیسے اس کا فرمان ہے کہ رحمٰن نے تخت پر قرار پکڑا۔[2] انتھیٰ۔ چھٹا قول: امام علی بن مہدی طبری رحمہ اللہ نے کتاب ’’مشکل الآیات‘‘[3] میں فرمایا ہے: ’’جان لو! اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے اور وہ ہر چیز پر قائم اور اپنے تخت پر ہے۔ استوا کے معنی ’’اعتلا‘‘ ہیں، جس طرح عرب نے کہا ہے کہ میں جانور کی پشت پر مستوی ہوا یا مکان کی چھت پر یا آفتاب میرے سر پر مستوی ہوا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے عرش پر عالی ہے اور اپنی مخلوقات سے جدا ہے۔ مندرجہ ذیل آیات اس پر دلیل ہیں: ﴿ ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ﴾[الملک: ۱۶] [کیا تم اس سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے] ﴿ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ﴾[آل عمران: ۵۵] [اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں] اور ﴿ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ﴾[السجدۃ: ۵] [پھر وہ (معاملہ) اس کی طرف اوپر جاتا ہے]۔‘‘ انتھیٰ۔ اس قول سے جس طرح استوا ثابت ہوا، اسی طرح جہتِ فوق بھی ثابت ہوتی ہے۔ ساتواں قول: حافظ ابو بکر محمد بن حسین آجری رحمہ اللہ نے کتاب ’’الشریعۃ‘‘ کے ’’باب التحذیرمن
Flag Counter