Maktaba Wahhabi

42 - 360
یہ خبردی کہ: "إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ"(النمل:23) میں نے وہاں ایک عورت دیکھی جو اس قوم کی حکمراں ہے۔ اس کو ہرطرح کا سروسامان بخشا گیا ہے اور اس کاتخت عظیم الشان ہے۔ توحضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کے پاس ایک خط روانہ کیا ، جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور بغیر کسی سرکشی کے مکمل اطاعت قبول کرلینے کا حکم دیا۔ چنانچہ ملکہ بلقیس نے اپنی مملکت کے اکابرین کو مشورے کی خاطر جمع کیا کہ سلیمان علیہ السلام کو کیا جواب دینا چاہیے۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے پاس زبردست طاقت موجود ہے۔ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس سلسلے میں جو بھی اقدام کریں گی وہ سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔ اس پر ملکہ سبا نے کہا: "إِنَّ الْمُلُوك إِذَا دَخَلُوا قَرْيَة.................."الخ ملکہ سبا ان لوگوں پریہ واضح کردیناچاہ رہی تھی کہ بادشاہ جب کسی دوسری مملکت میں فاتح وغالب کی حیثیت سے داخل ہوتاہے تو اس بستی کا یہ انجام ہوتا ہے کہ فاتح بادشاہ اسکی اینٹ سے اینٹ بجادیتا ہے، اسے تباہ برباد کرڈالتا ہے اور مملکت کے شریف شہریوں کی عزت کو خاک میں ملادیتاہے۔ تاریخ شاہد ہےکہ واقعتاً جب کبھی استعماری قوتیں کسی ملک میں داخل ہوئیں تو انہوں نے اسے زیر وزبر کرڈالا اور وہی انجام کیاجس کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سارے بادشاہ ایسے ہی ہوتے ہیں اور فتح ونصرت کے بعد وہ دشمن ملکوں کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں۔ کیوں کہ بادشاہوں میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی۔ بادشاہت جب اچھوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو تعمیر واصلاح فی الارض کا ذریعہ بنتی ہے اور جب بُروں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو تباہی وبربادی کا سبب بن جاتی ہے۔
Flag Counter