Maktaba Wahhabi

281 - 360
ب:اس نے اپنے ارادے اور اختیار سے نشے کا استعمال کیا ہے اس لیے بطور سزا طلاق واقع ہوگئی۔ 2۔ دوسرا گروہ وہ ہے جس کے نزدیک طلاق اس وقت واقع ہوتی ہے، جب کامل ہوش وحواس کے ساتھ اور سوچ سمجھ کرطلاق دی گئی ہو۔ چنانچہ ان کے نزدیک نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ یہ رائے جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مثلاً عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ انہوں نے بخاری شریف میں اس سلسلے میں علیحدہ باب باندھا ہے اور احادیث سے ثابت کیا ہے کہ نشے کی حالت میں یا زبردستی دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ذیل میں چند دلیلیں پیش کرتا ہوں۔ الف:حدیث ہے: "إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ " یعنی عمل کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ شرابی جب نشے کی حالت میں طلاق دیتا ہے تو طلاق دینا اس کی نیت نہیں ہوتی ہے۔ ب:حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب زنا کاارتکاب ہوا اور پھر اس کااقرار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ ان کا منہ سونگھ کرپتا کریں کہ کہیں وہ نشے کی حالت میں تواقرار نہیں کررہے ہیں۔ اس کامطلب یہ ہواکہ نشے کی حالت میں کیا ہوااقرار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔ ج:اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ نشے کی حالت میں نماز نہیں ہوتی کیونکہ اس سلسلے میں اللہ کا صریح حکم موجود ہے۔ جس طرح مدہوشی کی وجہ سے یہ نماز نہیں ہوتی۔ اسی طرح وہ تصرفات بھی واقع نہیں ہوتے جن میں براہِ راست عقل کا استعمال ہو مثلاً نشے کی حالت میں کی گئی خریدوفروخت کاکوئی اعتبار نہیں ہے۔
Flag Counter