Maktaba Wahhabi

280 - 360
کرتی ہوں اور اُسے دین کی طرف راغب کرنا چاہتی ہوں وہ میرا مذاق اُڑاتا ہے اور کبھی گالم گلوچ پر اُتر آتا ہے۔ بعض اوقات اسی نشے کی حالت میں طلاق دےڈالتا ہے حالانکہ مجھے یقین ہے کہ طلاق دینا اس کا مقصد ہرگز نہیں ہوتا۔ بعض لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ طلاق تو ہوگئی اگرچہ اس نے نشے کی حالت میں دی ہے اور طلاق دینا اس کا مقصد نہیں تھا۔ کیوں کہ نشے کااستعمال اس نے اپنی مرضی سے کیا اور اپنی مرضی سے ہی ہوش وحواس کھوئے اس لیے اس کی سزا یہ ہے کہ طلاق واقع ہوجائے۔ لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے اس سے علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے کیونکہ میں مطلقہ ہوں۔ علیحدگی اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میرا ساراگھر اور میری ازدواجی زندگی تباہ وبرباد ہوکررہ جائے گی ۔ ایسے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ جواب:طلاق کے سلسلے میں شروع سے ہی علماء کے دو گروہ پائے جاتے ہیں۔ 1۔ پہلا گروہ وہ ہے جن کا فتویٰ طلاق سے متعلق بڑا سخت ہے۔ اس میں وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک پاگل کی دی ہوئی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔ زبردستی دی ہوئی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔ بھول چوک سے طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ خواہ کتنے بھی غصے کی حالت میں طلاق دی گئی ہو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ طلاق کااستعمال نہ بھی کیا ہو اور کسی دوسرے لفظ کے ذریعہ سے طلاق دی، جب بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس گروہ کے نزدیک نشے کی حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ۔ اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ۔ کا یہی قول ہے۔ ان کی دلیل درج ذیل ہے: الف:نشے کی حالت میں بھی وہ شخص مکلف ہے۔ کیونکہ نشے کی حالت میں اگر وہ کسی گناہ یاجرم کاارتکاب کرتا ہے، تو وہ گناہ گار اورمجرم کہلاتاہے اور اس جرم کی اسے سزا ملتی ہے۔ نشے میں ہونا اس کے لیے معافی کاسبب نہیں بن سکتا۔ اسی طرح نشے میں ہونا اس کے لیے عدم طلاق کا سبب نہیں ہوسکتا۔
Flag Counter