Maktaba Wahhabi

262 - 360
نہیں کیا ہے اور اس کی تسکین کا سامان کیا ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو کہ عام طور پر دن میں روزہ رکھتے تھے اور راتیں تہجد نوافل میں گزاردیتے تھے، فرمایا: "إِنَّ لرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقّاً" تم پرتمہارے بدن کا بھی حق ہے اور تم پر تمہارے گھر والوں کابھی حق ہے ۔ اسی لیے علماء کرام نے شوہروں کو ہدایت کی ہے کہ بیویوں کی جنسی تسکین کاپورا خیال رکھیں۔ انہیں صرف اپنی جنسی تسکین سے غرض نہ ہو بلکہ اپنی بیوی کی خواہشوں کو بھی مد نظر رکھیں۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ شوہر کو چاہیے کہ ہر چوتھی رات اپنی بیوی سے مباشرت کرے۔ بیوی کا خیال کرتے ہوئے وہ اس مدت میں کمی بیشی بھی کرسکتا ہے۔ (6) حدیث میں ہے کہ جماع سے قبل بیوی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور بوسے بازی ہونی چاہیے تاکہ عورت کی جنسی شہوت خوب جاگے اور تب جاکر اس کی تسکین ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ایک دم سے عورت پر ٹوٹ پڑے اور جانوروں کی طرح اپنی خواہش پوری کرکے چلتابنے۔ حدیث ہے: "لا يَقَعَنَّ أحدُكم على امرأتِه كما تَقَعُ البَهيمةُ وليكنْ بينهما رسولٌ ) قيل : وما الرسولُ ؟ قال : ( القُبْلةُ والكَلامُ)"(مسند الفردوس) تم میں سے کوئی اپنی بیوی پر اس طرح نہ گرپڑے جس طرح جانور گرتے ہیں۔ پہلے دونوں کے درمیان پیغام رسانی ہونی چاہیے۔ پوچھا گیا کہ پیغام رسانی کا کیا مطلب یا رسول اللہ؟( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بوسے بازی اور محبت بھری بات چیت ۔ اسی حدیث میں آگے مرد کی تین کمزوریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک
Flag Counter