Maktaba Wahhabi

252 - 360
عورت ہے جو کسی اجنبی شخص کے ایک اشارہ پر اس کے پیچھے کھینچی چلی آتی ہے۔ 3۔ تیسری شرط یہ ہے کہ کتابیات نہ خوداسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہوں اور نہ کسی ایسی تنظیم یا جماعت سے وابستہ ہوں جو اسلام اور مسلم دشمن ہو۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں مسلمانوں کو ان لوگوں کے ساتھ موالات سے منع فرمایا ہے جو اسلام ومسلم دشمن ہوں۔ اس سے بڑھ کر موالات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے ساتھ رشتے داری قائم کی جائے۔ مسلم دشمن جماعت یامعاشرہ کی کسی عورت کو مسلم خاندان کا ایک فرد بنایا جائے۔ اس صورت میں اس بات کا زبردست امکان ہے کہ شادی کی آڑ لے کر مسلم دشمن عورتیں مسلم معاشرے میں جاسوسی کرتی پھریں اور یوں مسلمانوں کی تباہی کاسبب بنیں۔ اسی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ جب تک اسرائیل اور ہمارے درمیان جنگ کی صورت قائم ہے کسی یہودی عورت سے شادی جائز نہیں ہے۔ 4۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ کتابیہ سے شادی کرنے سے کسی قسم کے نقصان اور فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔ یہ نقصان مختلف صورتوں میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ نقصان اور فتنے کی ایک صورت یہ ہے کہ شادی کے بعد کتابیہ اپنے بچوں کی تربیت اپنے دین ومذہب کے مطابق کرے گی اور وہ بچوں کو اسلام سے دور کردے گی۔ ایسے گھرانوں میں جہاں عورتیں حکمرانی کرتی ہیں اورمرد حضرات ان کے سامنے بھیگی بلی بنے رہتے ہیں اس بات کا امکان اور بھی زیادہ ہے۔ یا اس بات کا اندیشہ ہوکہ اس طرح کی شادی مسلم معاشرے میں رواج کی صورت اختیار کرلے۔ پھر تو یہ ہوگا کہ لوگ جس قدر کتابیات سے شادی کریں گے مسلم لڑکیاں اسی قدر شادی سےمحروم رہ جائیں گی۔ اسی اندیشے کے پیش نظر عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن الیمان کی جنھوں نے مدائن میں ایک یہودی لڑکی سے شادی کرلی تھی، خط لکھا کہ میراخط ملتے ہی تم اس یہودیہ کو طلاق دے دو کیوں کہ مجھے اندیشہ ہے کہ وہاں
Flag Counter