Maktaba Wahhabi

201 - 360
لیتا ۔ امام طبری کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا اس لیے کہا تھا کہ لوگ ابھی ابھی جہالت اور پتھروں کو پوجنے کے دور سے نکلے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کہہ کر لوگوں پر واضح کر دیا کہ حجراسود کو بوسہ دینا صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں ہے۔ پتھروں کی تعظیم و تکریم کی خاطر نہیں۔ یہ وہ احادیث ہیں جن کے صحیح ہونے پر تمام علماء امت کا اتفاق و اجماع ہے۔ مزید برآں حجراسود کو بوسہ دینا ایک ایسی سنت جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے آج تک ہر دور میں عمل ہوتا آیا ہے اور آج تک کسی نے بھی اس سلسلے میں کسی شک و شبہ کا اظہار نہیں کیاگویا تمام امت مسلمہ کا اس پر اجماع و اتفاق ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت کسی گمراہی پر متفق نہیں ہو سکتی ہے۔ گویا پوری امت کا کسی بات پر متفق ہونا ہی اس بات کے صحیح ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اس مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام میں بہت سارے اعمال ایسے ہیں جن کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے۔ جنھیں ہم امر تعبدی بھی کہتے ہیں یعنی وہ عبادات یا عمل جسے ہم محض اس لیے ادا کرتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے خواہ اس کی حکمت ہماری سمجھ میں آئے نہ آئے۔ ان تعبدی عبادات اور اعمال کی ایک بڑی حکمت یہ ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ کون اللہ کے احکام کا تابع ہے اور کون اپنی عقل کے تابع ہے حجراسود کا بوسہ لینا بھی امر تعبدی ہے۔ ذرا غور کریں حجراسود کو بوسہ لینا کیوں کر پتھروں کو پوجنے کے مشابہ ہو سکتا ہے جب کہ حج کے دوران ہم جو کچھ کرتے ہیں اور جہاں جہاں جاتے ہیں وہاں ابراہیم علیہ السلام کا نام اور ان کی یاد وابستہ ہوتی ہے۔ اور یہ ابراہیم کون تھے؟یہ وہ تھے جنھوں نے ایک کلہاڑی سے پتھروں کی تمام مورتیوں کو مسمار کر ڈالا تھا۔
Flag Counter