Maktaba Wahhabi

162 - 360
کاموں میں ملوث ہو اسے زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتی ہے؟ یا ان لوگوں کو زکوٰۃ دینا اللہ کی نافرمانی شمار کی جائے گی۔ جواب:۔ جو شخص سرے سے اللہ اس کے رسولوں اور یوم آخرت کا منکر ہو تو اسے زکوٰۃ کی رقم دینی جائز نہیں ہے کیوں کہ وہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر اسلام اور مسلمانوں کا دشمن تصور کیا جائے گا۔ اسے مالی طور پر مستحکم کرنا گویا اسلام اورمسلمانوں کے خلاف اس کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو اسلام اور مسلمانوں سے برسر پیکار ہو اور علی الاعلان ان سے دشمنی کی باتیں کرتا ہواسے بھی زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے۔ کیو نکہ انہیں زکوٰۃ دینا گویا ان سے موالات اور مواخات قائم کرنا ہے اور اللہ نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے۔ البتہ وہ ذمی شخص جو مسلم حکومت کی سر پرستی میں ہے بعض فقہاء کے نزدیک محض تالیف قلب کی خاطر اسے زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتی ہے۔ لیکن جمہور فقہاء کا قول ہے کہ زکوٰۃ کی رقم ذمی کو بھی نہیں دی جا سکتی کیونکہ زکوٰۃ ان ذمیوں سے وصول نہیں کی جاتی ہےاور جب وصول نہیں کی جاتی تو انہیں دی بھی نہیں جاسکتی ہے حدیث میں ہے کہ زکوٰۃ مسلمان مالداروں سے لی جاتی ہے اور مسلمان غریبوں کی طرف لوٹا دی جاتی ہے۔ البتہ ان ذمیوں کی زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے طریقوں سے مدد کی جا سکتی ہے اگر وہ مالی تعاون کے محتاج ہوں۔ رہے وہ مسلمان جو فاسق و فاجر ہیں۔ نماز نہیں پڑھتے اور حرام کام کرتے ہیں تو انہیں زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتی ہے بہ شرطے کہ وہ اس رقم کو اللہ کی نا فرمانی کے کاموں میں خرچ نہ کریں اگر وہ اس رقم کو گناہوں کے کاموں میں خرچ کریں مثلاً:شراب پینے میں یا جوا کھیلنے میں تو زکوٰۃ کی رقم انہیں ہر گز نہیں دی جائے گی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے اہل بدعت اور اہل فسق و فجور کو زکوٰۃ کی رقم دینے کے سلسلے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: ہمیں چاہیے کہ ہم ان فقراء و مساکین اور دوسرے
Flag Counter