Maktaba Wahhabi

160 - 360
زبانوں کے ذریعے۔ معلوم ہوا کہ جہاد فقط تلوار کی جنگ کا نام نہیں ہے بلکہ بسا اوقات اور حسب ضرورت مال کے ذریعے جہاد ہوتا ہے۔ کبھی جسمانی قوت کا استعمال ہوتا ہے اور کبھی لسانی قوت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ 2۔ لفظ جہاد کو وسیع تر مفہوم پر محمول کرنے کے لیے اگر کوئی قطعی نص نہ بھی ہو تب بھی محض قیاس کی بنا پر ایسا کیا جا سکتا ہے، کیونکہ جہاد چاہے تلوار سے ہو چاہے قلم اور چاہے زبان سے۔ ان میں سے ہر جہاد کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے یعنی اعلاء کلمۃ اللہ۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ حالات اور ماحول کی مناسبت سے بعض کاموں کو اس ملک میں جہاد تصور کیا جائے گا۔ وہی کام بعض دوسرے ملکوں میں محض ایک رفاہی کام قرارپائے گا۔ مثلاً:ایک ایسے ملک میں جہاں اسلام کا غلبہ ہے مسلمانوں کی اکثریت ہے اور لوگ دینی تعلیم سے آگاہ ہیں وہاں کسی مدرسے یا مسجد کی تعمیر ایک رفاہی کام تو ہو سکتا ہے مگر جہاد نہیں ہو سکتا۔ اس کے بر عکس کسی غیر مسلم ملک میں جہاں مسلمانوں کی اقلیت ہو اشاعت اسلام کی خاطر مسجد یا مدرسے تعمیر کرنا یقیناً جہاد ہے۔ عیسائی مشنریوں کی مثال واضح ہے۔ انھوں نے چرچ ، ہسپتال اور اسکول کی تعمیر کی آڑلے کر عیسائیت کی جس قدر تبلیغ کی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ درحقیقت اس دور میں جہاد فی سبیل اللہ کی سب سے عظیم صورت یہ ہے کہ مسلم ممالک جو کفار مشرکین کے قبضے میں چلے گئے ہیں انہیں بہ زور قوت واپس حاصل کیا جائے۔ کفارو مشرکین چاہے عیسائی ہوں یا یہودی ہوں یا کمیونسٹ ، ان میں سے کوئی بھی اگر مسلم ممالک پر غاصبانہ قبضہ کر لیتا ہے تو اس وقت تک جہاد کی تمام صورتیں بروئے کار لائی جائیں گی جب تک یہ علاقے مسلمانوں کو واپس نہیں مل جاتے۔ مثال کے طور پر فلسطین کا نام لیا جا سکتا ہے جس پر یہودی ظالمانہ طریقے سے غاصب ہو گئے ہیں چنانچہ جہاں بھی اس طرح جنگ جاری ہو ہمیں بھر پور مالی تعاون کرنا چاہیے ان جگہوں پر
Flag Counter