Maktaba Wahhabi

153 - 360
سونے کا ہو یا چاندی کا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کا نصاب بیس دینار اور چاندی کا نصاب دوسودرہم مقرر کیا تھا۔ اس زمانے میں ایک دینار دس درہم کے برابر ہوا کرتا تھا گویا بیس دینار اور دوسودرہم قیمت میں مساوی تھے ۔ اس کے بعد سونے کے مقابلے میں چاندی کی قیمت مسلسل گرتی گئی اور آج یہ حالت ہے کہ سونے اور چاندی کی قیمتوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اسلام میں زکوٰۃ امیروں پر فرض کی گئی ہے تاکہ ان کا کچھ مال فقیروں کی طرف لوٹایا جائے ۔ اس دور میں چاندی کی قیمت اس قدر گر گئی ہے کہ دو سودرہم کے برابر چاندی رکھنے والوں کو ہم امیر نہیں کہہ سکتے کیونکہ دو سودرہم کے برابر کی چاندی زیادہ سے زیادہ چار یا پانچ سو روپے کے برابر ہوگی۔ چار پانچ سوروپے کی ملکیت کسی شمار میں نہیں ہے ۔ اس کے برخلاف بیس دینار کے برابر تقریباًساڑھے سات تولہ ہوتا ہے یا پچاس گرام اور ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت تیس ہزار روپے سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایک نظر ہم اگرروپے پیسوں کے علاوہ دوسری ان چیزوں پر ڈالیں جن پر زکوٰۃ واجب ہے مثلاً: اونٹ ، بکری وغیرہ تو ہمارا دل اسی بات پر مطمئن ہو گا کہ سونے ہی کو روپے پیسے کا نصاب مقرر کرنا چاہیے۔ کیونکہ اونٹ اور بکری وغیرہ کی جو تعداد نصاب زکوٰۃ کے لیے مقرر کی گئی ہے یا اس کی قیمت ساڑھے سات تولہ سونے کے آس پاس تو ہو سکتی ہے لیکن دو سودرہم چاندی کے آس پاس کبھی نہیں ہو سکتی ۔ سوال:۔ میرے پاس چند قطعہ اراضی ہیں جنھیں میں نے ایک مدت قبل خریدا تھا۔ اگر اس پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے تو کیا اس قیمت کے لحاظ سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی جس قیمت پر میں نے اس زمین کو برسوں قبل خریدا تھا، یا ہر سال زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت اس کی حالیہ قیمت کے لحاظ سے؟ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہر سال زمین کی قیمت نکالنا ایک مسئلہ ہے۔
Flag Counter