Maktaba Wahhabi

152 - 360
جواب:۔ جب تک اس کی نیت یہ تھی کہ اسے عمارت فروخت کرنی ہے اس وقت تک اس عمارت کو عروض التجارۃ سمجھ کر اسےاس کی قیمت کا اندازہ کر کےاس پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ لیکن جب اس نے اپنی نیت تبدیل کر لی اس وقت سے زکوٰۃ اس عمارت کی قیمت پر نہیں بلکہ اس کے کرائے پر ادا کرنی ہوگی۔ رہا یہ مسئلہ کہ وہ اپنی نیت تبدیل کر سکتا ہے یا کہ نہیں ؟ تو یہ اس کا شرعی حق ہے کہ ضرورت پڑنے پر جب چاہے اپنی نیت تبدیل کر سکتا ہے۔ سوال:۔ بعض لوگ لیزپر یعنی پٹے پر حکومت سے زمین حاصل کرتے ہیں پھر تجارت کی غرض سے اس زمین پر آفس یاگودام وغیرہ بنالیتے ہیں۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ لیز کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ زمین حکومت کو واپس کرنی پڑتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اتنی ہی یا اس سے کم مدت کے لیے دوبارہ زمین لیز پر مل جاتی ہے۔ کیا اس زمین پر زکوٰۃ واجب ہے؟ جواب:۔ لیز پر حاصل کی ہوئی زمین پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ کیونکہ یہ زمین دراصل حکومت کی ملکیت ہے نہ کہ زمین حاصل کرنے والے کی۔ اور زکوٰۃ اس چیز پر ادا کی جاتی ہے جو اپنی ملکیت میں ہو۔ رہی عمارت یا آفس جو اس زمین پر بنائی جاتی ہے تو اس پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے، کیوں کہ آفس یا عمارت عروض التجارۃ نہیں ہے جیسا کہ اس سے قبل میں نے ذکر کیا ہے۔ زکوٰۃ اس مالِ تجارت پر ادا کی جائے گی جو اس آفس یا عمارت میں فروخت کرنے کی غرض سے رکھا جاتا ہے۔ سوال:۔ روپے کی زکوٰۃ کا حساب سونے سے لگایا جائے گا۔ یا چاندی سے؟ جواب:۔ بہتر اور قرین قیاس یہی ہے کہ اس دور میں روپے پیسے کی زکوٰۃ کا حساب سونے سے لگایا جائے نہ کہ چاندی سے۔ کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کا نصاب سونے اور چاندی دونوں سے مقرر کیا تھا تو ان کا یہ مقصد ہر گز نہ تھا کہ دو نصاب مقرر کیے جائیں۔ ایک سونے کا دوسرا چاندی کا۔ بلکہ حقیقتاً وہ ایک ہی نصاب تھا، چاہے وہ
Flag Counter