Maktaba Wahhabi

128 - 360
فرضیت کا انکار کیا تو وہ اسلام کے دائرے سے خارج شمار کیا جائے گا کیونکہ اس کی فرضیت کا انکار درحقیقت قرآن وسنت کی تکذیب ہے۔ اب رہا سوال اس کی حکمت کا۔ فرض کیجیے ایک ڈاکٹر اپنے مریض کے لیے دوائیں تجویز کرتا ہے۔ دوگولیاں کھانے سے قبل اور دو کھانے کے بعد دو چمچی صبح اور دو چمچی شام۔ کیا مریض کا ڈاکٹر سے یہ سوال کرنا ضروری ہے کہ فلاں دو اور دو چمچی کیوں لینی ہے تین کیوں نہیں ؟اور فلاں کھانے سے قبل کیوں کھانی ہے بعد میں کیوں نہیں؟ اگر ڈاکٹر مریض کو اس کی علت و حکمت بتا دیتا ہے تب بھی یہ طبی باریکیاں کیسے مریض کی سمجھ میں آسکتی ہیں؟ اس کی صحیح حکمت و مصلحت تو صرف ایک تجربہ کا رڈاکٹر ہی سمجھ سکتا ہے۔ یہی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ ان سب کے لیے جو شرعی احکام وعبادات کی حکمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول ساری عبادتیں انسانی دل کے لیے دوا کی مانند ہیں۔ انسان کو غفلت غرور اور بھول چوک کے مرض سے شفا بخشنے کے لیے۔ یہ اللہ کا حق ہے کہ ان میں سے جس دوا کی حکمت چاہے اپنے بندوں پر ظاہر کرے اور جس کی حکمت چاہے پوشیدہ رکھےبندے کو اس بات پر مکمل یقین ہو نا چاہیے کہ اللہ نے جو دوائیں تجویز کی ہیں وہ ساری کی ساری اس کی بہبود اور بھلائی کے لیے ہیں۔ "وَاللّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ " (البقرۃ:220) برے اور بھلے دونوں کے بارے میں اللہ جانتا ہے۔ کتنے ہی ایسے شرعی احکام ہیں جن کی حکمت و غایت قرون اولیٰ میں پوشیدہ تھی۔ بعد کے وقتوں میں سائنسی ترقی نے ان کی حکمت و غایت سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ عبادات اور شرعی احکام کی روح یہی ہے کہ انہیں اللہ کے حکم کے مطابق انجام دیا جائے چاہے ہم ان کی حکمت سے واقف ہوں یا نہ ہوں۔ بندے کو ہر حال میں اپنے رب کی اطاعت کرنی چاہیے اگر انسان صرف انہیں چیزوں میں اپنے رب کی اطاعت
Flag Counter