Maktaba Wahhabi

120 - 249
جواب:… جو رقم آپ کے پاس موجود ہے، اس پوری رقم کی زکوٰۃ نکالنا آپ پر واجب ہے جبکہ اس پر سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور علماء کے دو اقوال سے میں صحیح تر قول کے مطابق موسسۃ کا قرضہ اس ادائیگی میں مانع نہیں۔ لیکن اگر آپ موسسہ کا قرضہ سال پورا ہونے سے بیشتر ادا کر دیتے ہیں تو جو کچھ قرضہ کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا اس پر زکوٰۃ نہ ہوتی۔ زکوٰۃ صرف اس مال پر ہوتی جو سال گزرنے پر قرضہ کی ادائیگی کے بعد باقی رہ جاتا اور وہ نصاب کی حد کو پہنچتا۔ چاندی کا کم سے کم نصاب اور جو کچھ سعودی عرب کی موجودہ کرنسی کے حساب سے بنتا ہے وہ ۵۶ ریال ہے۔ آپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ آپ زکوٰۃ میں سے اپنی والدہ کو کچھ دیں۔ کیونکہ والدین میں سے کسی کو بھی زکوٰۃ نہیں لگتی۔ علاوہ ازیں وہ غنی ہے۔ جس پر آپ کا والد خرچ کرتا ہے۔ رہا تمہارا بھائی! تو جب تک وہ تارک نماز ہے، زکوٰۃ اسے بھی نہیں لگ سکتی۔ کیونکہ نماز ارکان اسلام میں شہادتین کے بعد سب سے بڑا رکن ہے۔ اس لیے بھی کہ نماز کو عمداً چھوڑنا کفر اکبر ہے اور اس لیے بھی زکوٰۃ اسے نہیں لگ سکتی کہ وہ طاقتور اور کمانے کے قابل ہے اور اگر اس پر کچھ خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو اس کا باپ اس کا زیادہ حقدار ہے کیونکہ خرچ اخراجات کے پہلو سے وہی جواب دہ ہے۔ جب تک کہ وہ اس کی طاقت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے اور حق کی راہ دکھلائے اور اپنے نفس، شیطان اور برے دوستوں کے شر سے پناہ میں رکھے۔ میں ملازم ہوں، تنخواہ پاتا ہوں، میں نے سنا کہ ایک تاجر صدقہ تقسیم کرتا ہے، میں اس کے ہاں گیا تو اس نے مجھے بھی مال دیا، کیا وہ مال میرے لیے جائز ہے؟ سوال:… میں ملازم ہوں اور مجھے تقریباً تین ہزار ریال ماہوار تنخواہ ملتی ہے۔ کسی تقریب کے موقعہ پر میں نے سنا کہ ایک تاجر صدقہ تقسیم کرتا ہے۔ میں اس کے ہاں گیا تو اس نے مجھے بھی کچھ رقم دے دی۔ کیا یہ مال میرے لیے حلال ہے؟ (ق۔ م۔ س۔ الریاض) جواب:… اگر آپ کی تنخواہ سے آپ کی اپنی اور اہل وعیال کی ضروریات پوری نہ ہو سکتی ہوں اور خرچ معمول کے مطابق ہو، جس میں اسراف و تبذیر نہ ہو تو آپ کے لیے زکوٰۃ حلال ہے، ورنہ
Flag Counter