جناب اصلاحی صاحب نے جب اس پرپیچ اور دشوار گزار وادی میں کوئی بھی قدم نہیں رکھا، تو آں محترم اس راہ کی اصل دشواریوں کو کیوں کر محسوس کر سکتے ہیں؟ محض کرکٹ کے تماشہ بینوں کی طرح دور سے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نقد و تبصرہ ہی کر سکتے ہیں۔ چونکہ فن جرح و تعدیل جناب اصلاحی صاحب کے اصل ذوق کا میدان نہیں ہے، لہٰذا اس کام میں جو مشکلات آں موصوف نے محسوس فرمائی ہیں، ان کا سبب اس عظیم الشان فن پر ان کی گہری نگاہ نہ ہونا ہے، اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی حد وسعت سے زیادہ زیربار بھی نہیں فرماتا، جیسا کہ ارشاد باری ہے: [لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا] [1]
جہاں تک جناب اصلاحی صاحب کے مجوزہ محتاط طرز عمل کا تعلق ہے تو یہ بھی قطعاً بے بنیاد اور عبث ہے کیونکہ جرح و تعدیل کے کام کی جن مشکلات کا تذکرہ آں محترم نے ’’سند کا دوسرا خلاء‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت کیا ہے ان تمام مشکلات اور اعتراضات کے تسلی بخش جوابات نیز ان کے قابل قبول حل اوپر پیش کئے جا چکے ہیں، لہٰذا جب محترم اصلاحی صاحب کی بیان کردہ علت ہی باقی نہ رہی تو ان کے مجوزہ ’’محتاط طرز عمل‘‘ کی بھی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ ’’سند کا پہلا خلاء‘‘ کے تحت جناب اصلاحی صاحب نے فن اسماء الرجال کے متعلق اپنی محتاط رائے یوں بیان فرمائی تھی – ’’فی الجملہ ہمیں ان لوگوں کے کوائف معلوم ہیں اور اب ان کی شخصیات مجہول نہیں رہیں۔ ان کے بارے میں کسی رائے کو حتمی یا قطعی کہنا مشکل اور غالباً اپنی معلومات – الخ‘‘۔ اور ’’سند کا دوسرا خلاء‘‘ کے زیر عنوان اپنی دوسری محتاط رائے کے مطابق فن جرح و تعدیل کی فراہم کردہ تمام معلومات کی روشنی میں فی الجملہ رواۃ حدیث کی شخصیات کو حد جہالت سے نکالنے کے بعد ان کے بارے میں ایک رائے قائم کرنے کے قائل نظر آتے ہیں، مگر وہ رائے بھی بقول آں موصوف قطعی اور حتمی نہیں بلکہ محض ایک وہم و خیال یا ظن و گمان کی حیثیت میں ہو گی۔ میں پوچھتا ہوں کہ آخر پھر اس رائے کو قائم کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بالخصوص اس صورت میں جبکہ فن جرح و تعدیل کے ضمن میں خود آں محترم ایک مقام پر فرما چکے ہیں: -- ’’یہاں یہ نکتہ نہایت اہم اور قابل توجہ ہے کہ اس زمانہ میں حدیث کے طالب علموں کو جملہ رواۃ حدیث کے بارے میں جرح و تعدیل کے لئے بہرحال سلف کی تحقیقات پر ہی قناعت کرنی پڑے گی اور مجرد انہی کی تحقیقات کی کسوٹی پر کسی سند کے راویوں کا درجہ متعین کیا جائے گا۔ چنانچہ اب کسی حدیث کی سند کو متقدمین کی فراہم کردہ انہی معلومات کی روشنی میں جانچا پرکھا جائے گا، اس لئے کہ ذرائع تحقیق مرور زمانہ سے اب معدوم ہو چکے ہیں۔ اس میں ہمارے اکابرین فن نے تحقیق کی معراج کی بلندیوں کو چھوا ہے اور انسانی امکان کی حد تک اس فن کی خدمت کی ہے‘‘۔ [2]
|