به مروی ہے لیکن اس کا راوی احمد بن محمد الصلت بن المغلس ابو العباس الحمانی انتہائی مجروح ہے۔ ابن حبان، دارقطنی اور ابن ابی الفوارس کا قول ہے کہ ’’وہ حدیث گھڑتا تھا‘‘، ابوبکر الخطیب فرماتے ہیں: ’’وہ احادیث بیان کیا کرتا تھا لیکن اس کی اکثر احادیث ایسی ہوتی تھیں کہ جنہیں اس نے خود گھڑا ہوتا تھا‘‘۔ ابن قانع کا قول ہے: ’’ثقہ نہیں ہے‘‘۔ صاحب التنقیح فرماتے ہیں: ’’وہ کذاب وضاع ہے‘‘۔ ابن عراق الکنانی اور ملا طاہر پٹنی کا قول ہے کہ ’’کذاب ہے‘‘۔ امام ذہبی رحمہ اللہ اس کی ایک روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’یہ جھوٹ ہے‘‘۔ اس کے متعلق منقول ہے کہ جھوٹوں میں اس سے زیادہ بے حیا شخص نہیں دیکھا گیا ہے۔ پس یہ روایت خانہ ساز ہونے کی بنا پر ناقابل استدلال قرار پائی۔ احمد بن محمد بن المغلس کے تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ [1]کے تحت درج شدہ کتب کا مطالعہ مفید ہو گا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ائمہ فن نے راویان حدیث کے احوال و کوائف کے متعلق جو کچھ تفصیلات فراہم کی ہیں ان کے بارے میں محترم اصلاحی صاحب کو خواہ مخواہ یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی ہے کہ وہ محض ان ائمہ کی رائے، ظن و اجتہاد یا قیاس پر مبنی ہیں، چنانچہ جگہ جگہ ’’محتاط رائے یہ ہو سکتی ہے‘‘، ’’کسی رائے کو قطعی اور حتمی کہنا‘‘، ’’قابل اطمینان رائے‘‘ اور ’’—آسانی کے ساتھ رائے نہیں قائم کی جا سکتی‘‘ درج فرماتے ہیں حالانکہ تمام اصحاب نظر جانتے ہیں کہ فن اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کی اساس امور محسوسہ یعنی مشاہدات و مسموعات پر قائم ہے، چنانچہ شیخ محمد عبدالسلام مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بڑی خصوصیت فن حدیث اور سلسلہ أسناد کو یہ حاصل ہے کہ اس میں اجتہاد، تخمین، ظن کو دخل نہیں۔ یا تو مشاہدات ہیں یا مسموعات۔ اتصال سند، توثیق رواۃ، راوی و مروی عنہ کی معاصرت، ان کا آپس میں لقاء، سماع، یہ سب امور مسموعات یا مشاہدات سے ہیں۔ دو شخصوں کی معاصرت یا آپس کے لقاء کو، سماع کو، شخص حاضر رویت و مشاہدہ جانتا ہے۔ غائب حاضر کی شہادت سے جان سکتا ہے۔ رواۃ کا ثقہ ہونا، ضابط القلب ہونا، جید الحافظہ ہونا حاضرین ملاقات و تجربہ سے جانتے ہیں، غائبین ان کی شہادت اور ان کے درمیان شہرت سے – محدثین نے رواۃ کی نسبت جو کچھ ثقہ، ثبت، ضعیف، واہم، صدوق، شیخ وغیرہ الفاظ جرح و تعدیل لکھے ہیں کل کی بناء حس اور مشاہدات پر ہے نہ کہ رائے و قیاس پر اور زیادہ تر تجریبات ہیں‘‘۔ [2]
اس بارے میں تفصیلی بحث اوپر باب کے حصہ اول میں ’’ائمہ جرح و تعدیل کے مابین اختلاف رائے کی
|