باللفظ کا اہتمام فرمانا، روایت بالمعنی کے لئے شرائط مقرر کرنا، مفسق بدعت کی روایات میں سے صرف ایسی احادیث کو ہی قبول کرنا جو اس کی بدعت کو تقویت نہ پہنچاتی ہوں، اسی طرح مخالفت ثقات، متابعات و شواہد، زیادت و نقصان، تفرد اور معروف، اعتبار و معارضت، شاذومنکر کے مابین تفریق کرنا وغیرہ سبھی چیزیں تو متن حدیث سے متعلق ہیں۔ اسی طرح موضوع حدیث کی شناخت کے لئے محدثین کا جواز اور احوال رواۃ کی جانچ پڑتال کے ساتھ ساتھ متن حدیث پر بھی غوروبحث کے قواعد مرتب کرنا اور اس کی علامات بیان کرنا مثلاً رکیک الفاظ کی موجودگی یا روایت میں دلیل قطعی یا سنت متواترہ یا اجماع قطعی یا حس و مشاہدہ یا دلیل عقلی یا تاریخی حقائق کے خلاف مروی ہونا یا حقیر فعل پر شدید وعید یا عظیم اجر کا ذکر ہونا وغیرہ سب متن حدیث پر نقد و جرح سے متعلق چیزیں ہی تو ہیں۔ چونکہ یہ کتاب ان تمام مباحث کی تفصیلات کی متحمل نہیں ہو سکتی، لہٰذا متن حدیث کی جانب بھی محدثین کی تحقیقاتی کوششوں کے اس مختصر سے تعارف پر ہی ہم اکتفا کرتے ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ اس بارے میں جناب اصلاحی صاحب نے اوپر جو کچھ فرمایا ہے وہ اسلاف اور محدثین کرام کی ہمہ جہتی جہد و مساعی سے ان کی قطعی لاعلمی کا مظہر ہے اوریہ بات تو معلوم و مشہود ہے کہ کسی چیز کا نہ جاننا اس کے عدم کی دلیل نہیں ہوتی۔ اس معاملہ میں جناب اصلاحی صاحب کے دیرینہ رفیق جناب سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے بھی اپنی کوتاہ علمی کو یوں ظاہر فرمایا ہے:
’’جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا محدثین رحمہم اللہ کا خاص موضوع اخبار و آثار کی تحقیق بلحاظ روایت کرنا تھا اس لئے ان پر اخباری نقطہ نظر غالب ہو گیا تھا اور وہ روایات کو معتبر یا غیر معتبر قرار دینے میں زیادہ تر صرف اسی چیز کا لحاظ فرماتے تھے کہ اسناد اور رجال کے لحاظ سے وہ کیسی ہیں، رہا فقیہانہ نقطہ نظر (یعنی متن حدیث پر غور کر کے یہ رائے قائم کرنا کہ وہ قابل قبول ہے یا نہیں) تو وہ ان کے موضوع خاص سے ایک حد تک غیر متعلق تھا اس لئے اکثر وہ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا تھا اور وہ روایات پر اس حیثیت سے کم ہی نگاہ ڈالتے تھے۔ اسی وجہ سے اکثر ہوا ہے کہ ایک روایت کو انہوں نے صحیح قرار دیا ہے حالانکہ معنی کے اعتبار سے وہ زیادہ اعتبار کے قابل نہیں ہے۔ اور ایک دوسری روایت کو وہ قلیل الاعتبار قرار دے گئے ہیں حالانکہ معنیً وہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ یہاں اس کا موقع نہیں کہ مثالیں دے کر تفصیل کے ساتھ اس پہلو کی توضیح کی جائے مگر جو لوگ امور شریعت میں نظر رکھتے ہیں ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ محدثانہ نقطہ نظر بکثرت مواقع پر فقیہانہ نقطہ نظر سے ٹکرا گیا ہے اور محدثین کرام صحیح احادیث سے بھی احکام و مسائل کے استنباط میں وہ توازن ع اعتدال ملحوظ نہیں رکھ سکے ہیں جو فقہائے مجتہدین نے رکھا ہے‘‘۔ [1]
’’—درایت کا تعلق احادیث کے نفس مضمون سے ہے اور روایت کا تعلق تمام تر سند سے اہل روایت
|