Maktaba Wahhabi

185 - 363
’’اگر طعن کرنے والا محدثین میں سے ہو تو اس کا مجمل طعن کرنا، مثلاً یہ حدیث غیر ثابت ہے یا مجروح یا متروک ہے یا اس کے راوی غیر عدل ہیں، مقبول نہیں ہے، لیکن اس کا مفسر طعن جس کے سبب جرح ہونے پر علماء کا اتفاق ہو اور طاعن ناصح ہو تو یہ جرح درست ہے، ورنہ نہیں‘‘۔ [1] اور جناب اکرم بن عبدالرحمٰن السندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اکثر حفاظ تعدیل بلا سبب قبول کرنے پر متفق ہیں لیکن جرح کو قبول نہیں کرتے إلا یہ کہ اس جرح کا سبب مذکور ہو‘‘۔ [2] اگرچہ مذکورہ بالا علماء کے اقوال کے پیش نظر اول الذکر مسلک ہی درست اور راجح معلوم ہوتا ہے لیکن راقم کے نزدیک چوتھا مسلک زیادہ قوی اور ارجح ہے۔ قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ نے جمہور اہل العلم سے نقلا، فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے ’’المحصول‘‘[3]میں، امام الحرمین الجوینی نے ’’البرھان الحق‘‘[4]میں، بلقینی نے ’’محاسن الاصطلاح‘‘[5]میں، ابو حامد غزالی نے ’’المستصفی‘‘[6]میں، سیف الآمدی نے ’’الإحکام فی أصول الأحکام‘‘[7]میں، خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ’’الکفایۃ فی علم الروایۃ‘‘[8]میں، ابو الفضل عراقی نے ’’التقیید والایضاح‘‘[9]اور ’’فتح المغیث‘‘[10]میں، علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے ’’فتح المغیث‘‘[11]میں، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ’’اختصار علوم الحدیث‘‘[12]میں، علامہ منذری رحمہ اللہ نے ’’رسالۃ فی الجرح والتعدیل‘‘[13]میں، ابن الاثیر رحمہ اللہ نے ’’مقدمۃ جامع الأصول‘‘[14]میں، حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے ’’الأشباہ والنظائر‘‘[15]میں، آل تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’المسودہ‘‘[16]میں اور علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ نے ’’قواعد التحدیث‘‘[17]وغیرہ میں اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter