’’بيان أن جرح الضعفاء من النصيحة‘‘ [1]
برصغیر کے مشہور شاعر جناب الطاف حسین حالی اپنی ’’مسدس‘‘ میں فرماتے ہیں:
گروہ ایک جویا تھا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لگایا پتہ جس نے ہر مفتری کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا
کئے جرح و تعدیل کے وضع قانون نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوں
اسی دھن میں آساں کیا ہر سفر کو اسی شوق میں طے کیا بحروبر کو
سنا خازن علم دیں جس بشر کو لیا اس سے جا کر خبر اور اثر کو
پھر آپ اس کو پرکھا کسوٹی پہ رکھ کر دیا اور کو خود مزا اس کو چکھ کر
کیا فاش راوی میں جو عیب پایا مناقب کو چھانا مثالب کو ناپا
مشائخ میں جو قبح نکلا جتایا ائمہ میں جو داغ دیکھا بتایا
طلسم ورع ہر مقدس کا توڑا نہ ملا کو چھوڑا نہ صوفی کو چھوڑا
رجال اور اسانید کے جو ہیں دفتر گواہ ان کی آزادگی کے ہیں یکسر
نہ تھا ان کا احساں یہ اک اہل دیں پر وہ تھے اس میں ہر قوم و ملت کے رہبر
لبرٹی میں جو آج فائق ہیں سب سے بتائیں کہ لبرل بنے ہیں وہ کب سے
(مسدس حالی)
سید ابوالاعلی مودودی صاحب فرماتے ہیں:
(’’محدثین کرام نے) رسالت سے اپنا اور مسلمانوں کا تعلق برقرار رکھنے کے لئے شب و روز محنتیں کیں۔ حدیثوں کو جانچنے اور پرکھنے کے اصول بنائے۔ کھرے کو کھوٹے سے ممتاز کیا۔ ایک طرف اصول روایت کے اعتبار سے حدیثوں کی تنقیح کی، دوسری طرف ہزاروں لاکھوں راویوں کے احوال کی جانچ پڑتال کی، تیسری طرف درایت کے اعتبار سے حدیثوں پر نقد کیا۔ اور اس طرح سنت رسول کے متعلق ان لوگوں نے ایک ایسا ذخیرہ فراہم کر دیا جس کے برابر مستند اور معتبر ذخیرہ آج دنیا میں گزشتہ زمانے کے کسی شخص اور کسی عہد کے متعلق موجود نہیں ہے‘‘۔[2]
آں موصوف ایک اور مقام پر منکرین حدیث پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’—اگر یہ لوگ حق پرست اور انصاف پسند ہوں تو انہیں نظر آئے کہ محدثین کرام نے عہد رسالت اور عہد صحابہ کے آثار و اخبار جمع کرنے اور ان کو چھانٹنے اور ان کی حفاظت کرنے میں وہ محنتیں کی ہیں جو دنیا کے کسی گروہ نے کسی
|