حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’أصل الاسناد أولا خصيصة فاضلة من خصائص هذه الأمة و سنة بالغة من السنن المؤكدة‘‘ [1]
علامہ طیبی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’الإسناد خصيصة من خصائص هذه الأمة و سنة من السنن البالغة و طلب العلو فيه سنة أيضا و لذلك استحبت فيه الرحلة‘‘ [2]
یعنی ’’اسناد اس امت کے خصائص میں سے ایک خصوصیت اور سنن بالغہ میں سے ایک بلیغ سنت ہے۔ علو اسناد کی طلب بھی سنت ہے چنانچہ اس مقصد کے لئے سفر کرنا مستحب ہے۔‘‘
محمد بن ادریس ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’لم يكن في أمة من الأمم منذ خلق اللّٰه آدم أمناء يحفظون آثار نبيهم الا في هذه الأمة‘‘ [3]
یعنی ’’جب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ہے اس وقت سے آج تک کسی بھی امت نے اپنے نبیوں کے آثار کی حفاظت نہیں کی سوائے اس امت کے‘‘۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اسناد کی اصل اس امت کے خصائص میں سے ایک فضیلت والی خصوصیت، سنن مؤکدہ میں سے ایک بلیغ سنت بلکہ فروض کفایہ میں سے ہے۔ علو سند کی طلب امر مطلوب اور مرغوب فعل ہے‘‘۔ [4]
مطر الورق رحمہ اللہ آیت: ’’أو اثارة من علم‘‘[5]کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’الإسناد الحديث‘‘ [6]
|