Maktaba Wahhabi

418 - 630
۱۵۰۱ دارالسلام: ۳۷۷۰، ۴۳۲۵) میں بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایوب السختیانی نے اس جملہ میں شک کا اظہار کیا ہے کہ ’’مجھے معلوم نہیں کہ یہ نافع کا قول ہے یا مرفوع حدیث کا حصہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاري: ۲۵۲۴ و ۲۴۹۱) امام شافعی رحمہ اللہ کے مذکورۃ الصدر دونوں اقوال لکھنے کے بعد محترم زبیر صاحب لکھتے ہیں: ’’ثقہ راویوں کی متصل روایات میں اصل عدمِ شذوذ اور عدمِ علّت ہے، الاّ یہ کہ دلیلِ قوی سے شذوذ یا معلول ہونا ثابت ہوجائے۔‘‘ (الاعتصام: ۶۰/ ۴۶/ ص: ۲۲) سوال یہ ہے کہ وہ ’’دلیل قوی‘‘ کیا ہے؟ جس بنا پر شذوذ معلوم ہوجائے؟ یہی ناکہ (۱) اقوالِ محدثین ناقدین اور (۲) ان کے حدیث کی درایت کے اصول و ضوابط۔ آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ان دونوں ذرائع سے سلیمان تیمی کا شذوذ ثابت ہو چکا ہے۔ محترم، امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول کے تناظر میں فرماتے ہیں: ’’زیادت بیان کرنے والا ثقہ ہو تو قولِ راجح میں یہ زیادت مقبول ہوتی ہے، بشرط کہ اس میں ثقہ راویوں یا اوثق کی ایسی مخالفت نہ ہو جس میں تطبیق ممکن نہ ہو۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ص: ۳۸۴)‘‘ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۶، ص: ۲۳) غور کیجیے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہدی الساری میں کیا ارشاد فرماتے ہیں: ’’فإذا روی الضابط والصدوق شیئاً فرواہ من ھو أحفظ منہ
Flag Counter