Maktaba Wahhabi

236 - 630
3.اور عمرو بن دینار عن عبید بن عمیر ہیں۔ جو ان جیسے ثقہ ہوں اور اکثر روایات میں اپنے شیخ سے سماع غالب ہو تو کوئی ایسی حدیث مل جائے جس میں اس نے اپنے اور اپنے شیخ کے مابین کسی غیر معروف راوی کو داخل کیا ہو یا پہلے سے موجود ایسے راوی کو گرایا ہو تو اس مخصوص حدیث، جو اس نے اپنے استاد سے نہیں سنی، کو ساقط الاعتبار قرار دیا جائے گا۔ یہ تدلیس اس حدیث کے علاوہ دیگر احادیث میں نقصان دہ نہ ہوگی، یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ موصوف نے اس میں بھی تدلیس کا ارتکاب کیا ہے۔ پھر یہ مقطوع کی مانند ہوگی۔‘‘ (الکفایۃ للخطیب البغدادي: ۲/ ۴۰۹، برقم: ۱۱۹۰، ۔إسنادہ صحیح۔ باب في قول الراوي حدثت عن فلان) امام حمیدی رحمہ اللہ کے قول کا مدلول واضح ہے۔ البتہ ان کی پیش کردہ تین مثالوں پر تبصرہ ناگزیر ہے۔ پہلی مثال اور ابن جریج کی تدلیس: امام حمیدی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ پہلی مثال (ابن جریج عن عطاء) کی توضیح یہ ہے کہ عطاء بن ابی رباح سے ان کی روایت سماع پر محمول کی جائے گی۔ (التاریخ الکبیر لابن أبي خیثمۃ، ص: ۱۵۷، تحت رقم: ۳۰۸) بلکہ عطاء سے روایت کرنے میں یہ أثبت الناس ہیں۔ (التاریخ لیحییٰ بن معین: ۳/ ۱۰۱، فقرۃ: ۴۱۷ ۔روایۃ الدوري۔، دیکھیے: معرفۃ الرجال لابن معین: برقم: ۵۵۴، ۱۴۴۷ ۔روایۃ ابن محرز) امام احمد رحمہ اللہ نے ابن ابی رباح سے روایت کرنے میں عمرو بن دینار کو ابن جریج پر مقدم کیا ہے۔ جیسا کہ ان کے بیٹے امام عبداللہ رحمہ اللہ (العلل و معرفۃ الرجال:
Flag Counter