Maktaba Wahhabi

352 - 630
شاگردوں کے مابین اختلاف ذکر کر کے اس کی علت کی جانب اشارہ کیا ہے، جس کے درج ذیل قرائن ہیں: یہ زیادت امام مسلم رحمہ اللہ کے ہاں بھی شاذ ہے: اولاً: امام مسلم رحمہ اللہ زیادۃ الثقہ کو مطلق طور پر قابلِ قبول نہیں سمجھتے، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ کا خیال ہے اور نہ امام مسلم رحمہ اللہ کا مقدمۂ صحیح میں درج ذیل قول زیادۃ الثقہ کے مطلقاً قبول ہونے پر دلالت کرتا ہے کہ متفرد راوی اپنی روایت میں کچھ ایسے الفاظ کی زیادت کرتا ہے، جو اس کے دوسرے معاصرین بیان نہیں کرتے تو اس زیادت کو قبول کیا جائے گا۔‘‘ (مقدمہ، ص: ۶ دار السلام) جس کی مثال انھوں نے امام زہری رحمہ اللہ وغیرہ کی دی ہے۔ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ اگر ثقہ راوی کوئی اضافہ کرے اور اس کے خطا کی کوئی دلیل نہ ہو تو اسے ایک اساسی حیثیت دیتے ہوئے قبول کیا جائے گا۔ زیادۃ الثقہ کے بارے میں امام مسلم اور متقدمین کا موقف: اب زیادۃ الثقہ کے بارے میں امام مسلم رحمہ اللہ کا کلام ملاحظہ ہو: ’’روایت میں اختلاف کی صورت میں خطا تک پہنچنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ حفاظ رواۃ کی ایک جماعت کسی حدیث کو امام زہری ایسے کسی اور امام سے ایک سند اور ایک ہی متن سے روایت کرتی ہے۔ وہ سب رواۃ اس سے روایت کرنے میں سند اور متن میں اکٹھے ہوتے ہیں اور وہ اس روایت میں کسی بھی معنی میں اختلاف نہیں کرتے۔ اب ان کے علاوہ ایک اور شخص اسی روایت کو انھی محدثین سے روایت کرتا ہے، جن سے حفاظ رواۃ نے روایت کی ہے تویہ منفرد
Flag Counter