Maktaba Wahhabi

307 - 630
ثانیاً: بلاشبہ امام مزنی رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ کے علم کے وارث ہیں مگر ان کا شمار ائمۂ جرح و تعدیل میں نہیں ہوتا اور نہ معرفتِ علل الحدیث میں ان کا وہ مقام تھا جو مسائلِ فقہ میں تھا۔ اس لیے ان کی محض کتاب الرسالۃ کی تدریس سے امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف میں کوئی اضافہ کا باعث نہیں ہے۔ فقیہ مزنی رحمہ اللہ کے استاذ امام شافعی رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ کی معرفتِ علل الحدیث کے معترف تھے۔ اسی لیے وہ فرماتے: ’’تم حدیث اور رجال کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔ جب کوئی حدیث صحیح ہو تو مجھے مطلع کردو۔‘‘(العلل و معرفۃ الرجال: ۱/ ۴۶۲، فقرۃ: ۱۰۵۵) اس لیے جب مسئلۂ تدلیس میں امام شافعی رحمہ اللہ کا قول مرجوح ہوگا تو فقیہ مزنی رحمہ اللہ کا بہ طریق اولیٰ غیر معتبر ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے مؤیدین میں امام احمد رحمہ اللہ ، امام اسحاق رحمہ اللہ اور فقیہ مزنی رحمہ اللہ کو پیش کرنا قابلِ قبول نہیں۔ تیسرا گروہ: مقدمہ ابن الصلاح کے متعلقہ: حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ مدلس کا حکم تحریر کرتے ہیں: ’’بعض محدثین اور فقہا نے تدلیس کو باعثِ جرح قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے: اس کی روایت بہرصورت مقبول نہیں، خواہ وہ سماع کی صراحت کرے یا نہ کرے۔ جبکہ صحیح اس میں تفصیل ہے۔ جس روایت کو مدلس محتمل صیغے سے روایت کرے۔ اس میں سماع اور اتصال کی وضاحت نہ کرے تو اس کا حکم مرسل اور اس کی مختلف اقسام کا ہے۔ جس روایت کو وہ ایسے لفظ سے بیان کرے جو اتصال کو واضح کرے۔ جیسے ’’سمعت، حدثنا، أخبرنا‘‘ وغیرہ ہیں وہ مقبول اور محتج بہ ہے... کیونکہ تدلیس جھوٹ نہیں بلکہ وہ محتمل لفظ سے (سماع کا وہم) ڈالنے کی ایک
Flag Counter