Maktaba Wahhabi

619 - 630
حافظ علائی نے انھیں دوسرے طبقے میں ذکر کیا ہے، جن کے بارے میں وہ خود رقمطراز ہیں: ’’من احتمل الأئمۃ تدلیسہ، وخرجوا لہ في الصحیح، وإن لم یصرح بالسماع، وذلک إما لإمامتہ، أو لقلۃ تدلیسہ في جنب ما روی، أو لأنہ لا یدلس إلا عن ثقۃ۔‘‘ ’’جن مدلسین کے عنعنہ کو محدثین نے قبول کیا ہے اور صحیح میں ان سے وہ احادیث بھی لی ہیں جن میں سماع کی صراحت نہیں، ان کی امامت کی وجہ سے، یا ان کی مرویات کے تناسب سے تدلیس کی قلت کے سبب سے، یا صرف ثقہ راوی سے تدلیس کرنے کی وجہ سے ہے۔‘‘(جامع التحصیل، ص: ۱۳۰) حافظ ابن حجر نے بھی حافظ علائی کی متابعت کی ہے۔(طبقات المدلسین، ص: ۳۳، رقم: ۲/ ۳۶، النکت علی کتاب ابن الصلاح: ۲/ ۶۳۸) دکتور مسفر بن غرم اللہ الدمینی نے بھی حافظ ابن حجر کی تائید کی ہے۔(التدلیس في الحدیث، ص: ۲۵۲) گویا امام نسائی، حافظ عجلی، امام حاکم، حافظ علائی، حافظ ابو زرعہ ابن العراقی، حافظ ابن حجر رحمہم اللہ وغیرہ کی آرا سے معلوم ہوا کہ اسماعیل بن ابی خالد بہت کم تدلیس کرتے ہیں اور ایسے مدلس کا عنعنہ مقبول ہے، بشرط کہ اس میں تدلیس مضمر نہ ہو۔ پہلا جواب: ابن ابی خالد کے عنعنہ کا حکم: ابن ابی خالد کا عنعنہ مقبول ہے، کیونکہ وہ قلیل التدلیس ہیں، چنانچہ امام یعقوب بن شیبۃ رحمہ اللہ نے امام علی بن مدینی رحمہ اللہ سے مدلس کی بابت دریافت کیا تو انھوں نے جواباً فرمایا:
Flag Counter