Maktaba Wahhabi

507 - 630
لہٰذا ان کا کلام ان علماء کے فہم سے زیادہ مضبوط ہے۔ علما کے ہاں یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ منطوق مفہوم پر مقدم ہوتا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی ضعیف احادیث کے حوالے سے صراحت، منطوق ہے اور تلخیص میں ان کے طرزِ عمل سے علماء جو سمجھے، مفہوم ہے۔ لہٰذا ان کی صراحت اس مفہوم سے مقدم ہو گی۔ جن علماء نے اس مقولہ کو درست قرار دیا ہے ممکن ہے ان کی نگاہ میں سیر اعلام النبلاء والی صراحت موجود نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ خلاصہ: جس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ صحیح قرار دیں اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ ان کا تعاقب نہ کریں یا سکوت کریں تو یہ دلیل نہیں کہ امام حاکم رحمہ اللہ کا موقف درست ہے۔ کیونکہ المستدرک کی احادیث پر حکم لگانے میں ان سے بہت خطائیں اور تساہل ہوا ہے۔ لہٰذا حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا عدمِ تعاقب اقرار کے درجے میں نہیں آ سکتا۔ 2 جن روایات کو امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تعاقب نہیں کیا تو اس بنا پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو مطعون ٹھہرانا درست نہیں، کیونکہ ملخص کا مقصد تلخیص ہوتا ہے ہر ہر حدیث اور حکم کا تعاقب نہیں۔ 3 سب سے پہلے اس اصطلاح کا استعمال حافظ زیلعی رحمہ اللہ نے کیا۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اسے قاعدہ بنایا اور حافظ مناوی اور علامہ عزیزی نے بڑی وسعت سے اس کا استعمال کیا۔ یہاں تک کہ یہ مقولہ ایک مستقل حیثیت اختیار کر گیا۔ 4 حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’السیر‘‘ میں ’’المستدرک‘‘ کی احادیث کے بارے میں جو رائے دی ہے وہی ان کی حتمی اور آخری رائے ہے۔
Flag Counter