Maktaba Wahhabi

304 - 630
موافق تھا۔ ہم نے پہلے احتمال کو راجح قرار دیا، کیونکہ امام مسلم رحمہ اللہ کے الفاظ اسی پر دلالت کرتے ہیں۔ نیز امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق تدلیس میں شہرت نہیں مل سکتی۔ مگر بعض فضلاء نے بدونِ دلیل حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کے ذکر کردہ دونوں احتمالوں کو راجح قرار دیا ہے، حالانکہ حدیث کا ابتدائی طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ امام مسلم کثیر التدلیس کا حکم بیان کررہے ہیں، مگر ہمارے محقق کو اپنے موقف پر اصرار ہے اور وہ بھی بغیر دلیل کے۔ ثانیاً: اس کے ساتھ ہی ہم نے حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کے ذکر کردہ دوسرے احتمال کی بابت لکھا: ’’تدلیس کی بنا پر راوی اسی وقت مشہور ہوگا جب وہ کثرت سے تدلیس کرے گا۔ رہا ایک حدیث میں تدلیس کرنا یا ایک ہی بار تدلیس کرنا تو اس سے تدلیس میں شہرت نہیں مل سکتی۔‘‘ (محدث: ۴۶) ہمارے اس قضیہ کا کوئی جواب نہیں آیا۔ نیز امام مسلم رحمہ اللہ کے اس قول سے یہ استدلال اس ہیچ مداں ہی کا نہیں، دیگر اہلِ علم کی تائید بھی ہمیں حاصل ہے۔ امام مسلم کے قول سے استدلال کرنے والے علما: ۱۔ استاذ اثری حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’امام مسلم تو اس مدلس کی معنعن روایت پر نقد کرتے ہیں جو تدلیس میں معروف و مشہور ہو۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’إذا کان الراوی ممن عرف بالتدلیس في الحدیث وشھربہ‘‘ (مقدمۂ صحیح مسلم: ۱/ ۲۳)‘‘ (توضیح الکلام: ۳۱۴) ۲۔ دکتور عواد الخلف: (روایات المدلسین في صحیح البخاري: ۳۱) ۳۔ شیخ الشریف حاتم بن عارف: (المرسل الخفی وعلاقتہ بالتدلیس ۱/ ۴۹۱)
Flag Counter