Maktaba Wahhabi

416 - 630
بلکہ کسی حدیث کے شذوذ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ثقہ راوی اپنے سے اوثق یا ثقات کی مخالفت کرے، قطع نظر وہ زیادت اصل حدیث کے منافی ہو یا نہ ہو۔ اور یہی موقف امام شافعی رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر متقدمین کا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا ان دونوں اقوال کی توضیح امام ابو یعلی الخلیلی رحمہ اللہ کے نقل کردہ قول سے بھی ہوتی ہے۔ ’’فقد قال الشافعي وجماعۃ من أھل الحجاز: الشاذ عندنا یرویہ الثقات علی لفظ واحد ویرویہ ثقۃ خلافہ زائداً أو ناقصاً‘‘ ’’امام شافعی رحمہ اللہ اور اہلِ حجاز کی ایک جماعت کا قول ہے: ہمارے نزدیک شاذ حدیث وہ ہوتی ہے جسے ثقات (جماعت) ایک لفظ پر بیان کریں اور ثقہ راوی اس کے خلاف بیان کرے: (۱) خواہ زیادتی کے ساتھ۔ (۲) یا کمی کے ساتھ۔‘‘(الإرشاد للخلیلی: ۱/ ۱۷۶۔ بتجزئۃ السلفی) گویا جماعت کی روایت کے خلاف بیان کرنا ہی امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں شذوذ ہے خواہ وہ مخالفت روایت میں الفاظ کی کمی کے ساتھ ہو یا زیادتی کے ساتھ۔ اس اعتبار سے ان کے ہاں بھی سلیمان تیمی کی زیادت ’’فأنصتوا‘‘ شاذ قرار پاتی ہے، کیونکہ سلیمان نے یہ جملہ جماعت کی روایت کے خلاف بیان کیا ہے۔ جس بنا پر محدثین اسے تیمی کا وہم قرار دے چکے ہیں، امام شافعی رحمہ اللہ کے یہ تینوں اقوال ہمارے موقف کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مستزاد یہ کہ امام شافعی رحمہ اللہ بھی دیگر ناقدینِ فن کی طرح زیادت کو قرائن پر پرکھتے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور قرائن: چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter