Maktaba Wahhabi

297 - 630
۲۔ ’’ابراہیم کی تدلیس مضر نہیں۔‘‘ (أحسن الکلام: ۱/ ۳۲۳) ۳۔ ’’قتادۃ کا شمار ان مدلسین میں ہوتا ہے جن کی تدلیس کسی کتاب میں مضر نہیں!‘‘ (أحسن: ۱/ ۲۰۱) ۴۔ ’’تدلیس کرنے والے راویوں کا ایک گروہ وہ بھی ہے جن کی تدلیس کسی طرح مضر نہیں ہے۔ اور محدثین ان کی معنعن حدیثوں کو بھی صحیح سمجھتے ہیں۔ جن میں خصوصیت سے ابو اسحاق السبیعیکا نام پیش کیا گیا ہے۔ ‘‘ (أحسن: ۱/ ۲۴۹) ۵۔ ’’محدثین اور محققین کے صنیع سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن عجلان، قتادہ، سفیان ثوری اور حسن بصری وغیرہ کی طرح ان مدلسین میں شامل ہیں، جن کی تدلیس کسی صورت مضر نہیں ہے۔‘‘ (أحسن: ۱/ ۲۱۸) علامہ محمود سعید ممدوح: یہ متعصب حنفی بھی طبقاتی تقسیم کے قایل ہیں۔ بنابریں وہ ابوالزبیر المکی کو طبقۂ ثانیہ کا مدلس قرار دیتے ہیں۔ اور محدث البانی رحمہ اللہ پر برستے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: (مقدمہ: تنبیہ المسلم إلی تعدی الألباني علی صحیح مسلم) نتیجہ واضح ہے کہ دیوبند بھی طبقاتی تقسیم کے قایل ہیں۔ ورنہ ابوالزبیر کے عنعنہ کے مقبول ہونے کا کیا مطلب؟ یہ درست ہے کہ اس مکتب ِ فکر کے لوگ مطلب برآری کے لیے رواۃ کا طبقہ تبدیل کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اہلِ علم ان کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا مقصود صرف اسی قدر ہے کہ ان کے ہاں مدلسین کا یکساں حکم نہیں۔ اسی طرح یہ دعویٰ کرنا کہ مولانا ارشاد الحق حفظہ اللہ بھی امام ابن مدینی رحمہ اللہ کے ہمنوا نہیں، عجلت کا آئینہ دار ہے۔ آپ پہلے پڑھ آئے ہیں کہ مولانا صاحب نے
Flag Counter