Maktaba Wahhabi

421 - 630
مستزاد یہ کہ شیخ زبیر صاحب نے حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کے جو دو اقوال ذکر کیے ہیں وہ ’’الأحکام في أصول الأحکام‘‘ سے نقل کیے ہیں۔ (الاعتصام، ج:۶۰، ش: ۴۶، ص: ۲۳۔ ۲۴) اور یہ بات ان پر بھی مخفی نہیں کہ ’’الأحکام في أصول الأحکام‘‘ مصطلح الحدیث پر مشتمل کتاب نہیں بلکہ اصولِ فقہ پر مبنی کتاب ہے۔ جیسا کہ کتاب کا نام بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ بلاشبہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ اس میں اصولِ حدیث بھی بیان کرتے ہیں، مگر اکثر و بیشتر اصولیوں اور فقہاء کے نقطۂ نظر کے مطابق، محدثین کے منہج پر نہیں! جیسا کہ انھوں نے اس کا مظاہرہ زیادۃ الثقہ کے مسئلے میں بھی کیا ہے۔ اس مسئلہ میں اگر شیخ زبیر صاحب اصولیوں کی ہمنوائی اور محدثین کی مخالفت کر رہے ہیں تو اس میں فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ ہم اپنے سابقہ مضمون میں عرض کر چکے ہیں ’’مطلق طور پر زیادت کو قبول کرنے کا موقف حضرات محدثینِ عظام کا تو نہیں، البتہ اصولیوں اور فقہاء کا نظریہ اسے مطلقاً قبول کرنے ہی کا ہے۔ جن کی تائید ہمارے استاذِ محترم زبیرصاحب بھی فرما رہے ہیں۔‘‘ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۳۴، ص: ۱۰) یہ بھی عرض کیا کہ ’’محترم حافظ زبیر صاحب سے گزارش ہے کہ محدثین کی وسعتِ نظری، استقرائے تام اور دقّتِ فہم کی بنا پر ان کی اصطلاحات کو راجح اور مستحکم سمجھیں اور اصولیوں کے ہم خیال نہ بنیں۔‘‘ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۳۴، ص: ۱۳) حافظ ابن حبان رحمہ اللہ اور حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر محدثین زیادت کو قبول یا رد کرنے میں قرائن کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ محدثین زیادات میں قرائن کا اعتبار کرتے ہیں: ہم نے اپنے سابقہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ امام ابن مہدی، امام یحییٰ
Flag Counter