Maktaba Wahhabi

242 - 630
تنبیہ ۱: صحیحین میں مدلسین کی معنعن روایات صحیح ہیں۔ تنبیہ۲: بعض مدلسین سے ان کے مخصوص شاگردوں کی معنعن روایت سماع پر محمول کی جاتی ہے۔ جس طرح امام شعبہ کی قتادہ بن دعامۃ سے۔ شعبہ فرماتے تھے: ’’کان ھمتي من الدنیا شفتی قتادۃ فإذا قال: سمعت، کتبت وإذا قال: قال، ترکت‘‘ ’’دنیا میں مجھے قتادہ کے ہونٹ کافی ہیں، جب وہ سمعت (سماع یا تحدیث کی صراحت کرتے) کہتے تو میں لکھ لیتا اور جب وہ قال (سماع پر محتمل صیغہ بولتے) کہتے تو میں انھیں چھوڑ دیتا۔‘‘(مسند أبي عوانۃ: ۲/ ۳۸) خلاصہ: اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں جس راوی نے بھی زندگی میں ایک بار تدلیس کی یا کسی حدیث میں تدلیس ثابت ہوگئی تو اس کے عنعنہ کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی۔ یہی موقف خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا ہے۔ مگر یہ موقف ناقدینِ فن کے موقف کے برعکس ہے۔ اس لیے مرجوح ہے کیونکہ: ۱۔ محدثین کے ہاں تدلیس کی متعدد صورتیں ہیں۔ جن کے متعدد احکام ہیں۔ ۲۔ مدلسین کی طبقاتی تقسیم اس کی مؤید ہے۔ ۳۔ تدلیس کی کمی و زیادتی کا اعتبار ضروری ہے۔ ۴۔ ثقہ اور ضعیف راویوں سے تدلیس کرنے کا حکم یکساں نہیں۔ ۵۔ مدلس راوی کسی ایسے شیخ سے عنعنہ سے بیان کرے، جس سے اس کی صحبت معروف ہو تو اسے سماع پر محمول کیا جائے گا۔
Flag Counter