Maktaba Wahhabi

299 - 630
یہاں تک امام ابن مدینی رحمہ اللہ کے قول پر اعتراضات کا جواب مکمل ہوا۔ اب ہم ان کے بعد امام احمد رحمہ اللہ کا موقف بیان کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ امام احمد رحمہ اللہ کا موقف : ایک صاحب رقمطراز ہیں: اس تصریح کے مقابلے میں امام احمد رحمہ اللہ کا قول: ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘ ’’سؤالات أبي داود‘‘ (۱۹۹) پیش کرنا بے فایدہ اور مرجوح ہے۔ امام احمد کے قول کے مقابلے میں ’تصریح‘ نے راقم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے کہ وہ ہے کیا؟ ’تصریح‘ کی عجیب منطق: ’’تصریح‘‘ یہ ہے کہ امام اسحق بن راہویہ رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ کو خط لکھا کہ میری ضرورت کے مطابق امام شافعی کی چند کتب ارسال کریں۔ انھوں نے میرے پاس کتاب الرسالۃ روانہ کی۔ (الجرح والتعدیل: ۷/ ۲۰۴) اس اثر سے معلوم ہوا کہ امام احمد کتاب الرسالۃ سے متفق تھے۔ مسئلۂ تدلیس میں انھوں نے امام شافعی رحمہ اللہ کی تردید نہیں کی۔ لہٰذ ا ان کے نزدیک بھی مدلس کی معنعن روایت ضعیف ہے۔ خواہ قلیل التدلیس کی ہو یا کثیر التدلیس کی۔ نیز امام احمد رحمہ اللہ نے کتاب الرسالۃ کو بہ غور پڑھا تھا۔ یہ ہے تصریح! جو قول ہم نے ذکر کیا تھا وہ معذرت کے ساتھ دوبارہ پیشِ خدمت ہے۔ امام ابو داود فرماتے ہیں: ’’سمعت أحمد، سئل عن الرجل یعرف بالتدلیس، یحتج
Flag Counter