Maktaba Wahhabi

126 - 630
ایسے تفرد کو قابلِ تقویت نہیں سمجھتے، مثلاً وہ کسی مشہور سند سے کوئی ایسی منفرد حدیث بیان کرتا ہے جو اس شیخ کے مشہور شاگرد بیان نہیں کرتے، یعنی وہ امام زہری یا امام سفیان ثوری جیسے شیخ سے روایت بیان کرنے میں منفرد ہے۔ ایسی صورت میں محدثین زیادۃ الثقہ کو مطلق طور پر قبول نہیں کرتے، چہ جائیکہ وہ زیادۃ الضعیف کو تقویت دیں۔ جب ضعیف راوی کسی مشہور سند سے حدیث بیان کرنے میں منفرد ہوگا تو اس کی غلطی کا قوی یقین ہوجائے گا۔ یا یہ تصور کیا جائے گا کہ اسے کسی اور روایت کا شبہ ہے۔ یا اس کی حدیث میں دوسری حدیث داخل ہوگئی ہے۔ یا اسے وہم ہوا کہ اس سند سے یہ متن مروی ہے۔ یا اسے تلقین کی گئی تو اس نے قبول کر لی۔ یا اس کی کتاب وغیرہ میں حدیث داخل کر دی گئی اور وہ اس سے بے خبر رہا۔ چوتھا سبب: جب ایک سے زائد سبب ضعف ہوں: جب حدیث کی کسی سند میں ایک سے زائد ضعف ہوں، مثلاً روایت میں انقطاع بھی ہے اور راوی بھی ضعیف ہے، یا اس میں دو راویان ضعیف ہیں تو بسا اوقات محدثین ایسی سند قبول نہیں کرتے کیونکہ اس میں شاہد بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث غریب ہے، امام حاکم رحمہ اللہ نے الإکلیل میں اسے اسی طرح بیان کیا ہے۔ علی بن قادم، اس کا استاذ (ابو العلاء خالد بن طہمان) اور اس کا استاد (عطیہ) کوفی اور شیعہ ہیں، ان میں کلام ہے، ان میں سب سے زیادہ ضعیف عطیہ ہے، اگر اس کی متابعت
Flag Counter