Maktaba Wahhabi

505 - 630
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا کلام منقول نہ ہوتا۔ جبکہ انھوں نے سیر اعلام النبلاء (۱۷/ ۱۷۵۔ ۱۷۶) میں صراحت کی ہے کہ مستدرک میں ضعیف اور منکر روایات تقریباً ۴۲ فیصد ہیں۔ مگر جن کی نشاندہی کی وہ ۱۲ فیصد سے زیادہ نہیں۔ گویا ۳۰ فیصد احادیث ان کی نگاہ میں ضعیف تھیں۔ پھر یہ تحدید المستدرک کی احادیث کے ساتھ خاص ہے اور یہ استدلال (کسی عالم کا بدونِ تنقید کسی عالم کی بات نقل کرنا موافقت ہے) عام ہے۔ لہٰذا ان کے مابین تعارض کی صورت میں خاص کو مقدم کیا جائے گا کیونکہ وہ عام سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ دوسرا جواب: اس پر مستزاد یہ کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص استدراک اور تعاقب کے نظریے سے نہیں لکھی کہ ان کے عدمِ تعاقب یا سکوت کو موافقت قرار دیا جاسکے۔ بلکہ انھوں نے صراحت کی ہے کہ یہ کتاب میں نے مختصر کی ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں: 1 ھذا ما لخصہ۔ (مقدمۃ المستدرک: ۱/ ۲) 2 وقد اختصرتہ۔ (سیر أعلام النبلاء: ۱۷/ ۱۷۶) 3 اختصرت ہذا المستدرک۔ تاریخ الإسلام (حوادث ۴۰۱۔ ۴۲۰ھـ، ص: ۱۳۲) صاحبِ اختصار کا کام ہر چیز کا تعاقب نہیں ہوتا اور نہ یہ بات علماء کے ہاں معروف ہے کہ اختصار کرنے والا اصل کتاب کے مؤلف کی اغلاط کی نشان دہی کرے گا، بصورتِ دیگر اس کی موافقت قراردی جائے گی۔ اختصار کرنے والا بعض مقامات پر جو تعاقب کرتا ہے وہ طبیعت میں انشراح کی صورت میں کرتا ہے۔ عدمِ نشاط کے وقت اسے ترک کر دیتا ہے۔ جیسا کہ
Flag Counter