Maktaba Wahhabi

129 - 630
’’جو حافظ ابن حزم کی کتاب الأحکام پڑھے گا اس پر واضح ہوجائے گا کہ وہ مصطلح کے متعدد اور انتہائی اہم مسائل میں محدثین ائمہ کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘ الحدیث الحسن (۵/ ۲۴۲۲) استاذ اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حافظ ابن حزم بعض اصولی مباحث میں بھی محدثین کے ہمنوا نہیں، ان کے بعض اصول و ضوابط سے کچھ مختلف ہیں۔‘‘ (توضیح الکلام، ص: ۶۹۶) تیسرا جواب: حافظ ابن حزم کی ائمۂ فن پر نکیر: محدثین نے رواۃ کے درجات بنائے ہیں کسی راوی کو اعدل، اثبت، اوثق، اضبط قرار دیا تو کسی کو ثقہ وغیرہ، تاکہ بوقتِ ضرورت ایک راوی کی روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دی جا سکے، حافظ ابن حزم رحمہ اللہ اس اصول پر نکیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ان (محدثین) نے یہ کہہ کر غلطی کی ہے کہ فلاں راوی فلاں سے اعدل (زیادہ ثقہ) ہے اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ اعدل کی حدیث کو عادل پر ترجیح دی جائے۔‘‘ الإحکام (۱/ ۱۴۳) جو لوگ حسن لغیرہ کے عدمِ حجت ہونے میں حافظ صاحب کا قول پیش کرتے ہیں، ان سے سوال ہے کہ ثقہ پر اوثق کی روایت کو ترجیح دینا غلطی ہے؟ جیسا کہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ فرما رہے ہیں، یا ایسا نادر فن ہے جس کے لیے اللہ ذوالجلال والاکرام نے امام یحییٰ بن سعید القطان، امام عبدالرحمن بن مہدی، امام اہل السنۃ احمد بن حنبل، امام بخاری رحمہم اللہ جیسے اعیان پیدا فرمائے، کیا وہ سبھی اس ’’غلطی‘‘ کا ارتکاب کرتے رہے؟ یا فرامینِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے رہے؟ انھیں یہ بھی معلوم ہوتا کہ فلاں راوی کی فلاں شیخ سے اتنی اور یہ یہ احادیث ہیں، فلاں راوی فلاں شیخ سے بیان کرتا ہے اور اگر وہ نہ بیان کرتا تو فوراً اس کی
Flag Counter