سمجھا جائے گا گویا یہ رقم بھی اس کے پاس ہے۔
دوسری صورت میں قرض دی ہوئی رقم کی زکاۃ اس وقت ادا کی جائے گی جب وہ وصول ہوجائے، تاہم اس میں یہ اختلاف ہے کہ وصولی کے بعد گزشتہ تمام سالوں کی زکاۃ دی جائے، یا ایک ہی سال کی زکاۃ دی جائے۔ زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ صرف ایک سال کی زکاۃ اس وقت ادا کردی جائے جب وہ رقم وصول ہو۔ اس سلسلے میں احناف کا مسلک البتہ یہ ہے کہ ایسے مال پر سرے سے کوئی زکاۃ ہی نہیں ۔ نئے سرے سے اس کا حساب کیاجائے گا اور سال گزرنے کے بعد ہی اس پر زکاۃ عائد ہوگی۔
بہر حال صحیح مسلک یہی ہے کہ غیر یقینی رقم کی وصولی کے فورًا بعد ایک سال کی زکاۃ نکال دی جائے اور نئے سرے سے سال گزرنے کا انتظار نہ کیا جائے۔
یہی حکم اس مال کا ہوگا جو کسی مقدمے وغیرہ کی صورت میں حکومت کے قبضے میں ہو اور مالک کے تصرف میں نہ ہو۔ حکومت کا قبضہ اٹھ جانے کے بعد جب یہ مال مالک کے قبضے میں آئے گا، تو اس میں ایک سال کی زکاۃ ادا کردی جائے، اس قسم کے مذکورمال کو مالِ ضمار کہا جاتا ہے، یعنی ایسا مال جو انسان کی ملک میں تو ہو لیکن اس کا قبضہ و تصرف اس پر نہ ہو۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ایسے مال کے متعلق یہی فیصلہ دیا ہے کہ وصول ہونے پر ایک سال کی زکاۃ ادا کردی جائے۔[1]
اس کی مزید تفصیل… مالِ ضمار، تعریف اور حکم… کے عنوان کے تحت آگے آرہی ہے۔
|