حاصل نہیں ۔ مقروض تو اس لیے اس کا مالک نہیں کہ اس کا قبضہ و تصرف مالکانہ نہیں ، عارضی اور بطورِ انتفاع ہے۔ اصل مالک تو قرض دہندہ ہی ہے، وہ جب چاہے اس سے یہ مال واپس لے سکتا ہے اور مالک کو اس لیے ملکیت تام حاصل نہیں کہ فی الحال واقعتًا مال اس کے قبضہ و تصرف میں نہیں ہے، غیر کے تصرف میں ہے جس سے فائدہ بھی غیر ہی اٹھارہاہے، اس لیے دونوں ملکیت تام سے محروم ہیں جو زکاۃ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے۔
اور بعض کے نزدیک مقروض کے ذمے زکاۃ کی ادائیگی ہے کیونکہ مال اس کے قبضہ و تصرف میں ہے جس سے وہ فائدہ اٹھارہا ہے۔ تاہم یہ ساری آراء و مسالک جمہور علماء و فقہاء کے مسلک کے خلاف ہیں ۔
جمہور فقہاء کے نزدیک قرض پر دی ہوئی رقم کی دو صورتیں ہیں اور دونوں کا حکم الگ الگ ہے۔
1. قرض کی رقم ایسے شخص کے ذمے ہے جو صاحب حیثیت ہے اور اس کی طرف سے وصولی میں بھی کوئی شبہ اور خطرہ نہیں ، اس کی وصولی یقینی ہے۔
2. قرض کی رقم ایسے شخص کے ذمے ہے جو تنگ دست اور مفلس ہے، یا ایسے شخص کے ذمے ہے کہ جو سرے سے ادائیگی ہی کا منکر ہے اور ایسا کوئی دستاویزی ثبوت بھی نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر وصولی کے لیے قانونی چارہ جوئی ممکن ہو۔
پہلی صورت میں جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ قرض دہندہ قرض دی ہوئی رقم کی باقاعدہ ہر سال اپنے موجود مال کے ساتھ زکاۃ اداکرے۔ کیونکہ اس کی قرض دی ہوئی رقم محفوظ ہے، جسے وہ جب چاہے بآسانی وصول کرسکتا ہے۔ اس کو ایسا ہی
|