اس روایت کو حافظ ابن حجر اور دیگر بعض محققین نے حسن قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’ارواء الغلیل‘‘ میں بعض احادیث و آثار اور ان کے شواہد بیان کیے ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ سونے کے نصاب کے لیے مذکورہ حدیث صحیح بنیاد ہے ۔[1]
اور اس امت کے اہل علم کا اجماع ہے۔ جیسے امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ولم یأت في الصحیح بیان نصاب الذہب، وقد جاء ت فیہ أحادیث بتحدید نصابہ بعشرین مثقالا و ہي ضعاف ولکن أجمع من یعتد بہ في الإجماع علٰی ذلک
’’سونے کا نصاب کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں ہوا۔ جن احادیث میں 20 مثقال (20 دینار) نصاب کی تحدیدہے، وہ ضعیف ہیں لیکن اس نصاب پر اُن اہل علم کااجماع ہے جن کے اجماع کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔‘‘[2]
یہ امام نووی رحمہ اللہ کی رائے ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ کو اس سے اتفاق نہیں کیونکہ ان کے نزدیک سونے کے نصاب والی احادیث صحیح ہیں ، یہاں امام نووی کی رائے ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس نصاب کو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں گو اجماع کی وجہ سے۔
علامہ یوسف القرضاوی حفظہ اللہ نے سونے کے نصاب کی تین بنیادیں ذکر کی ہیں :
1. مرفوع احادیث جن کی سندوں پر جرح تو ہوئی ہے لیکن بہر حال ایک دوسری کی تقویت کا باعث ضرورہیں ۔ (اس کے بعد انہوں نے وہ حدیثیں ذکر کی ہیں )
|