Maktaba Wahhabi

617 - 625
افراد کولے گئے۔ہمارے گھر میں ایک خود میں،میرے والد اور والدہ یا انھوں نے بیوی کہا۔میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر میں کام کرنے والا خادم بھی تھا۔اس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھا لیا اور نمازِ عشا تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ہی رہے۔نمازِ عشا کے بعد وہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر ہی پہلے گئے۔ پھر رات کا ایک حصہ گزرنے کے بعد وہ اپنے گھر آئے تو ان کی اہلیہ نے پوچھا کہ آپ کو مہمانوں کی مہمان نوازی کرنے سے کس نے روک لیا تھا؟ انھوں نے پوچھا: ’’کیا تم لوگوں نے ابھی تک مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا؟ ان کی اہلیہ نے بتایا کہ انھوں نے آپ کے شامل ہوئے بغیر کھانا کھانے سے انکار کر دیا تھا،ہم نے تو کھانا پیش کیا تھا،مگر وہ نہ مانے۔‘‘ یہ حدیث طویل ہے،جس میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انھیں کھانا کھلایا۔وہ کھاتے جاتے،مگر کھانا کم ہونے کے بجائے بڑھتا گیا،حتیٰ کہ ان مہمانوں کے کھا لینے کے باوجود کھانا ان کی بیوی کے بقول تیار کیے گئے کھانے سے تین گنا زیادہ ہوگیا۔وہ کھانے والا برتن نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بھیج دیا گیا،صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے وہ فوج کے بارہ دستوں کو بھیجا گیا تو ان سب نے بھی وہ کھانا کھایا۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ ’’کتاب مواقیت الصلاۃ‘‘ کے علاوہ ’’باب علامات النبوۃ‘‘ یعنی کتاب المناقب میں بھی لائے ہیں،کیوں کہ اس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی علامت و معجزہ بھی ہے،اگرچہ اس میں حضرتِ صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت و کرامت بھی ہے۔حافظ عسقلانی رحمہ اللہ،اسی طرح علامہ عینی صاحبِ ’’عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري‘‘ کے بقول امام بخاری رحمہ اللہ نے نمازِ عشا کے بعد مہمان اور اہلِ خانہ سے گفتگو کے جواز کا جواب قائم کیا تو ان کا استدلال حضرتِ صدیق رضی اللہ عنہ کے اپنی اہلیہ اور پھر مہمانوں سے بات کرنے کے الفاظ سے ہے۔یاد رہے کہ یہ حدیث صحیح بخاری کے متعدد مقامات کے علاوہ صحیح مسلم،کتاب الاطعمۃ اور سنن ابی داود میں بھی مروی ہے۔[1]
Flag Counter