Maktaba Wahhabi

590 - 625
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے وقت پر اسے پڑھتے تھے،پھر عصر کی اقامت ہوئی اور اسے بھی ایسے ہی پڑھا،جیسے کہ اس کے وقت میں پڑھتے تھے۔[1] ان احادیث میں نمازوں کو ان کے اوقات کے بعد پڑھنے کا ذکر ہے،لیکن ان میں اذان کا تذکرہ نہیں آیا۔ایسی احادیث سے استدلال کرتے ہوئے امام اوزاعی،مالک اور جدید قول کے مطابق امام شافعی رحمہم اللہ نے ایسے موقع پر اذان نہ کہنے کی رائے اختیار کی ہے،لیکن یہ رائے مرجوح ہے۔جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت کیا گیا ہے اور جن احادیث میں اذان کا ذکر نہیں آیا،ان کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ نے ان حضرات کو دو طرح سے جواب دیا ہے: پہلا جواب: ان احادیث میں اذان کا ذکر نہ آنے سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کہلوائی ہی نہ ہو،بلکہ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کہلوائی ہو،مگر راوی نے اس کا ذکر نظر انداز کر دیا ہو یا پھر اذان کا راوی کو علم نہ ہوا ہو۔یہ جواب فتح الباری میں بھی دیا گیا ہے۔[2] دوسرا جواب: ممکن ہے کسی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان نہ کہلوائی ہو،بلکہ اسے ترک کر دیا ہو،تاکہ اذان ترک کر دینے کا جواز بیان کر دیں اور اس بات کی طرف اشارہ کر دیں کہ قضا نماز کے لیے اور خصوصاً جب کہ سفر میں بھی ہو عام حالات کی طرح اذان واجب نہیں رہتی۔یعنی اس کے وجوب میں کچھ نرمی آجاتی ہے۔[3] سرّی و جہری نمازوں کی قضا: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی غزوۂ خندق والی اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگر دن کی کوئی سرّی نماز قضا ہو جائے اور اسے رات کے وقت پڑھا جائے تو رات ہونے کے باجو د
Flag Counter