Maktaba Wahhabi

81 - 625
’’ایک جماع کو چھوڑ کر باقی سب کچھ بیویوں کے ساتھ کر سکتے ہیں۔‘‘ اس فرمانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر یہودیوں نے(بھڑک کر) کہا کہ یہ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم ) کوئی معاملہ بھی ایسا نہ چھوڑیں گے،جس میں ہماری مخالفت نہ کریں،تو حضرت اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما نے اس قول کی خبر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائی اور ساتھ ہی کہنے لگے: کیا ہم ان ایام میں جماع بھی کر لیں؟ تو یہ سُن کر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس(غصّے سے) متغیر ہو گیا۔راویِ حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر سخت ناراض ہوں گے۔اتنے میں وہ دونوں اُٹھ کر چلے گئے۔عین اسی وقت کوئی شخص دُودھ کا ہدیہ خدمتِ اقدس میں لایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو بھیج کر ان دونوں کو واپس بلوایا اور انھیں دُودھ پلایا،جس سے ان کا یہ خدشہ جاتا رہا اور انھیں معلوم ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض نہیں ہیں۔[1] صحاح وسنن کی مذکورہ احادیث اور مسلم و نسائی کی تفسیری حدیث سے ان مخصوص ایام میں عورت کے دائرہ کار اور شوہر کے تعلّقات کی حدُود واضح ہوکر سامنے آگئی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مُسلمان مرد وزن،وہ چاہے کسی بھی حالت میں ہوں،اُن کے جُھوٹے کھانے اور پانی کے پاک ہونے کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔صرف ایک امام نخعی رحمہ اللہ سے مَروی ہے کہ وہ حائضہ عورت کے جُھوٹے کو ناپاک تو نہیں،البتہ مکروہ سمجھتے تھے۔[2] مگر ان کی یہ رائے جمہور اہلِ علم اور احادیث و آثار کے خلاف ہونے کی وجہ سے لائقِ اعتنا نہیں ہے اور یہی حال جابر بن زید کے قول کا ہے۔جس میں وہ ایسے پانی سے وضو نہ کرنے کی رائے دیتے ہیں۔امام ابنِ قدامہ نے ان کی تردید کی ہے۔[3] 2۔غیر مسلم کا جُھوٹا: غیر مسلم مَرد وزن کے جُھوٹے کھانے اور پانی کے حکم کے بارے میں تین آرا ہیں: 1۔ امام ابنِ قدامہ رحمہ اللہ کے بقول اکثر ائمہ و فقہا اور عام اہلِ علم کے نزدیک انسان کا جھوٹا پاک ہے۔وہ مسلم ہو یا کافر،کیوں کہ کافر بہ حیثیتِ انسان اور بنی آدم کے مسلمان جیسا ہی ہے۔[4]
Flag Counter