Maktaba Wahhabi

450 - 625
کے اس شخص کو وضو کا حکم دینے سے پہلے وہ وضو سے تھا اور نہ یہ بات ثابت ہے کہ اس عورت سے ملنے سے پہلے وہ وضو کیے ہوئے تھا جو ٹوٹ گیا،جب اس کا وضو ہی ثابت نہیں تو ٹوٹنے پر استدلال کیسے کیا جا سکتا ہے؟ 3۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو وضو کرنے کا حکم محض اس لیے فرمایا ہو کہ وضو گناہوں کر مٹا نے والا عمل ہے،نہ اس لیے کہ وہ وضو سے تھا اور اس کا وضو ٹوٹ گیا تھا۔ المختصر ایسے ہی بعض دیگر روایات اور آثار سے بھی استدلال کیا جاتا ہے،مگر ان کا حال بھی یہی ہے،جو اس حدیث سے استدلال کا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام شوکانی،علامہ ابن رشد اور علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہم اللہ جیسے کبار محققین نے اسی کو ترجیح دی ہے کہ عورت کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔[1] 3۔قہقہہ: وہ امور جو بعض فقہا کے نزدیک نواقضِ وضو میں سے ہیں،مگر ان کے نواقض ہونے کی کوئی صحیح دلیل نہیں،ان میں سے تیسری چیزہے: قہقہہ مار کر ہنسنا۔ امام احمد،شافعی اور امام مالک رحمہم اللہ اور ان کے اصحاب سبھی کا مسلک یہ ہے کہ قہقہہ مار کر ہنسنا نواقض میں سے نہیں ہے،چنانچہ سنن دارقطنی کے حوالے سے فتح الباری میں لکھا ہے کہ ایک مرفوع حدیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ نماز کے دوران میں ہنسنے سے وضو نہیں ٹوٹتا،لیکن وہ حدیث نقل کرنے کے بعد خود امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔البتہ اس مرفوع حدیث کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے موقوفاً،صحیح بخاری کے ایک ترجمۃ الباب میں تعلیقاً اور سنن دار قطنی و سنن سعید بن منصور میں صحیح سند سے موصولاً مروی ہے،فرماتے ہیں: ﴿إِذَا ضَحِکَ فِي الصَّلَاۃِ أَعَادَ الصَّلَاۃَ وَلَمْ یُعِدِ الْوُضُوْئَ [2] ’’اگر کوئی نماز میں ہنس دے تو وہ نماز دہرائے،لیکن وضو نہ دہرائے۔‘‘ اس صحیح سند والے اثر سے معلوم ہوا کہ نماز کے دوران میں ہنسنے سے نماز تو باطل ہوجاتی ہے،
Flag Counter