Maktaba Wahhabi

627 - 625
جبکہ چار روایا ت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہیں،جن میں سے ایک میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا ارشاد بھی شامل ہے،جبکہ انہی دونوں حضرات رضی اللہ عنہما سے دوسری صحیح اسناد والی روایات میں نمازِ ظہر کے بجائے نمازِ عصر بھی مروی ہے،جیسا کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے اور امام طبری رحمہ اللہ نے وہ روایات بھی اسانید کے ساتھ اپنی تفسیر میں درج کی ہیں۔[1] ایسے ہی بعض دیگر آثار ہیں،لیکن صحیح بخاری و مسلم اور سنن وغیرہ کی ان صحیح احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتے،جو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع ہیں،یعنی خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ وسطیٰ کی تعیین نمازِ عصر سے فرمائی ہے،جیسا کہ نمازِ فجر کہنے والوں کے دلائل کے جائزے کے ضمن میں بھی ذکر کیا جاچکا ہے۔ایسے ہی امہات المومنین حضرت حفصہ،ام سلمہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی روایات ملتی ہیں،جن سے نمازِ ظہر پر استدلال کیا جاتا ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں یہ وضاحت نہیں ہے،بلکہ ان سے اس کے برعکس وہ روایات بھی ملتی ہیں،جن میں نمازِ عصر کے نمازِ وسطیٰ ہونے کی صراحت موجود ہے،لہٰذا ظہر والی روایات سے استدلال کمزور ہے۔[2] نمازِ عصر کہنے والوں کے دلائل: اکثر صحابہ و تابعین،ائمہ و فقہا اور محدثینِ کرام کے نزدیک راجح تر قول یہ ہے کہ نمازِ وسطیٰ سے مراد نمازِ عصر ہے،اس بات کے دلائل میں صرف امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں دو چار نہیں،بلکہ چھیاسٹھ احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور اقوالِ تابعین روایت کیے ہیں اور علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے درست ہی کہا ہے کہ نمازِ وسطیٰ کی تفسیر میں امام طبری نے ایک سو تیرہ(113) احادیث و آثار روایت کیے ہیں اور اس موضوع پر ایسا استیعاب تفسیر طبری کے سوا کسی دوسری کتابِ تفسیر و حدیث میں نہیں،انھوں نے اس کا حق ادا کر دیا ہے اور حسبِ عادت انھوں نے دلیل کے اعتبار سے قوی ترین رائے کو راجح قرار دیتے وقت نمازِ عصر ہی کو اختیار کیا ہے اور اسی کو ثابت کرنے کے لیے چھیاسٹھ(66) احادیث و آثار بیان کیے ہیں۔ان سب کا یکے بعد دیگر ذکر تو باعثِ طوالت ہوگا۔تشنگانِ علم مذکورہ تفسیر کی جلد پنجم(ص: 168) سے لے کر(ص: 198) تک یعنی اکتیس(31)
Flag Counter