Maktaba Wahhabi

500 - 625
مثل یا دو مثل ہو جانے کا ذکر آتا ہے تو اس سے وقت معلوم کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔آج اگرچہ گھڑی اور کیلنڈر کا زمانہ ہے۔سایہ ناپنے کی کسے ضرورت ہوسکتی ہے؟ مگر درحقیقت کیلنڈروں پر جو اوقاتِ ظہر و عصر لکھتے ہیں،وہ بھی تو اسی طریقے سے وقت دیکھ دیکھ کر مہینوں اور سالوں کے تجربات کے نتائج ہی سے لکھے جاتے ہیں۔بہرحال وقت دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ زوالِ آفتاب سے پہلے پہلے کسی کھلی اور ہموار جگہ پر کوئی لکڑی وغیرہ گاڑ دیں۔اس لکڑی کا سایہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائے گا۔یہاں تک کہ نصف النہار یعنی عین دوپہر کے وقت بالکل معمولی سا رہ جائے گا۔یہ دراصل اس چیز کا اصل سایہ کہلاتا ہے۔جب یہ سایہ دوسری جانب بڑھنا شروع ہو جائے تو وہ اس بات کی علامت ہے کہ زوالِ آفتاب شروع ہو گیا ہے یا بالفاظِ دیگر نماز کے اول وقت کا آغاز ہو گیا ہے۔پھر جب یہ سایہ اس قدر بڑھ جائے کہ زوال کے وقت والا لکٹری کا اصل سایہ منہا کرنے کے بعد اس لکڑی کے برابر ہوگیا تو یہ ایک مثل وقت ہو جائے گا،جو نمازِ ظہر کا آخری وقت ہے،یعنی اس سے پہلے ظہر پڑھ لینی چاہیے۔ نمازِ عصر کا وقت اور ایک اشکال کا حل: ایک مثل سے جب سایہ بڑھنا شروع ہوگا تو نمازِ عصر کا اوّل وقت شروع ہو جائے گا اور جب دوگنا یا دو مثل ہوگا تو جبرائیل علیہ السلام والی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی رُو سے یہ نمازِ عصر کا آخری وقت ہوگا۔ یہاں ایک اشکال یا شبہہ پیش آتا ہے،جو اس طرح ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دن جب نمازِ عصر پڑھی تو ہر چیز کا سایہ اس کے برابر یعنی ایک مثل تھا اور دوسرے دن جب ظہر کا آخری وقت دکھانے کے لیے نمازِ ظہر پڑھی،تو وہ بھی اسی وقت تھی،جب کہ سایہ ایک مثل تھا تو گویا دونوں نمازوں کے اوّل و آخر وقت میں اشتراک ہوگیا اور کوئی حد فاصل نہ ہوئی۔امام نووی اور شوکانی رحمہما اللہ نے لکھا ہے کہ اکثر اہلِ علم کے نزدیک نمازِ ظہر و عصر کے اوقات میں باہم کو ئی اشتراک نہیں ہے،اس پر صحیح مسلم،سنن ابو داود،نسائی اور مسندِ احمد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث سے استدلال کیا گیا ہے،جس میں وہ بیان فرماتے ہیں: ’’وَقْتُ الظُّھْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ،وَکَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ کَطُوْلِہٖ مَا لَمْ
Flag Counter