Maktaba Wahhabi

296 - 625
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کو تین دن اور تین راتیں اور مقیم کو ایک دن اور ایک رات کے لیے موزوں پر مسح کی رخصت دی،جب کہ اس نے وضو کرکے موزے پہنے ہوں۔‘‘ مسح کی مدت کا آغاز کب ہوتا ہے؟ مسح کے متعلق ایک بات یہ بھی ہے کہ مسح کی مُدّت جو ایک دن مقیم کے لیے اور تین دن مسافر کے لیے ہے،اس کی ابتدا کب سے شمار کی جائے گی؟ تاکہ چوبیس(42) گھنٹے یا بہتّر(72) گھنٹے کا شمار کیا جاسکے۔علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری نے ’’المرعاۃ شرح المشکاۃ‘‘ میں لکھاہے: ’’کثیر علما کا قول یہ ہے کہ موزوں پر مسح کی مدت کی ابتدا موزے پہننے کے بعد جب وضو ٹوٹے تو اس وقت سے ہوگی نہ کہ وضو کرنے یا مسح کرنے کے وقت سے اور نہ موزے پہننے کے وقت ہی سے۔اور امام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے: ’’موزے پہننے کے وقت سے ابتدا شمار ہوگی۔‘‘[1] ’’المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج‘‘ میں امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’امام شافعی اور کثیر اہلِ علم کا مذہب یہ ہے کہ اس مدّت کی ابتدا موزے پہننے کے بعد وضو ٹوٹنے کے وقت سے ہے،موزے پہننے سے نہیں اور نہ ان پر مسح کرنے ہی سے۔‘‘[2] صحیح مسلم اور دیگر کتب میں مذکور حدیثِ علی رضی اللہ عنہ اور اسی مفہوم کی دوسری احادیث کے ظاہری معنیٰ سے شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے یہ اخذ کیا ہے: ’’ابتداے مدّت کا اعتبار(پہلی مرتبہ) مسح کرنے سے ہوگا نہ کہ مسح کرنے کے بعد وضو ٹوٹنے کے وقت سے،امام نووی رحمہ اللہ نے اسے ہی ترجیح دی ہے،اگرچہ ان کے مذہب کے یہ خلاف ہے۔‘‘[3] محققین علما کی شان ہی یہ رہی ہے کہ جس بات کو قرآن و سنت کی رو سے صحیح تر سمجھیں،وہ اسے قبول کر لیتے ہیں،اگرچہ ان کا فقہی مذہب،حتیٰ کہ امامِ مذہب اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
Flag Counter