Maktaba Wahhabi

584 - 625
مابین فرق کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پہلے دو اوقات میں نماز مکروہ ہے اور دوسرے دونوں اوقات میں نماز حرام ہے،اس تفاوت اور فرق پر ان کی دلیل یہ ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھی تھی۔(جس کی تفصیل ذکر کی جا چکی ہے ) اس سے معلوم ہوا کہ عصر کے بعد نماز پڑھنا حرام نہیں،گویا انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہر کی دو سنتیں عصر کے بعد پڑھنے کو بیانِ جواز پر محمول کیا ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک روایت ملتی ہے کہ ان کے نزدیک نمازِ فجر کے بعد سے لے کر طلوعِ آفتاب تک مابین نماز پڑھنا حرام تھا اور وہ عصر کے بعد سے لے کر سورج کے زرد پڑجانے تک مابین نماز پڑھنا مباح سمجھتے تھے۔جب کہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ(اور بعض دیگر علما و محدث کا) بھی یہی مسلک تھا۔(جیسا کہ تفصیل ذکر کی جا چکی ہے) ان کی دلیل کے سلسلے میں سنن ابی داود کی وہ حدیث بھی ذکر کی گئی تھی،جسے کبار محدّثین میں سے کسی نے صحیح اور کسی نے قوی کہا ہے،جس میں مذکور ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے،سوائے اس وقت کے جب کہ سورج ابھی کافی بلند اور صاف شفاف ہو،یعنی زردی مائل نہ ہوا ہو۔ بہر حال بعض اہلِ علم کی رائے ہے کہ بعض اوقات میں نماز مکروہ اور بعض میں حرام اور بعض میں مباح ہے،جب کہ مشہور بات یہ ہے کہ ان تمام اوقات میں نماز مکروہ ہے،اس کراہت کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ کراہت تحریمی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نہیں بلکہ وہ کراہت تنریہی ہے۔یعنی بچنا افضل و اولی ہے۔[1] ظاہر ہے کہ سب اوقات ان پانچوں نمازوں کو بر وقت ادا کرنے سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ ادائی وقتِ اختیار میں یا چاہے وقتِ اضطرار میں ہو۔بہرحال ان اوقات میں پڑھی گئی نمازیں ادا شمار ہوں گی،قضا نہیں۔ فرضوں کی قضا: فرضی نمازوں کی قضا یا عدمِ قضا کے سلسلے میں اہلِ علم کی آرا مختلف ہیں۔اس سلسلے میں ہم صرف اتنا کہنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں کہ جو شخص بھول کر یا سویا رہ کر کسی نماز کو قضا کر دے تو اس پر اس نماز کی قضا ضروری ہے،اس پر پوری امت کا اتفاق ہے۔[2]
Flag Counter