Maktaba Wahhabi

622 - 625
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ : سورۃ البقرہ کی اس مذکورہ آیت(238) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے امام المفسر ین ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر(5/ 167 تا 227) میں مختلف اقوال اور ان کے دلائل ذکر کیے ہیں۔60 صفحات میں دی گئی تفصیلات کا خلاصہ صفحہ(221) پر ذکر کیا اور لکھا ہے: ’’وَالصَّوَابُ مِنَ الْقَوْلِ عَنْ ذٰلِکَ مَا تَظَاھَرَتْ بِہِ الْأَخْبَارُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم الَّتِيْ ذَکَرْنَاھَا قَبْلُ،وَھُوَ أَنَّہَا الْعَصْرُ‘‘[1] ’’ہماری ذکر کردہ احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مجموعے سے ثابت ہوتا ہے کہ مختلف اقوال میں سے صحیح تر قول یہ ہے کہ نمازِ وسطیٰ سے مراد نمازِ عصر ہے۔‘‘ امام قرطبی رحمہ اللہ : امام قرطبی رحمہ اللہ نے مذکورہ آیت کے تحت لکھا ہے کہ نمازِ وسطیٰ کی تعیین کے سلسلے میں اہلِ علم کے دس اقوال ہیں،پھر کچھ تفصیل و دلائل بھی ذکر کیے ہیں،جب کہ نمازِ عصر والے قول کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ حضرت علی،ابن عباس،ابن عمر،ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا بھی یہی اختیار ہے۔امام شافعی اور اکثر علماے حدیث نے بھی یہی کہا ہے۔ما لکی علما میں سے ابن حبیب،ابن العربی اور ابن عطیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ابن عطیہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جمہور اہلِ علم کا یہی قول ہے۔آگے صحیح مسلم،سنن ترمذی اور دیگر کتب کے بعض دلائل ذکر کیے اور بعض کی طرف اشارہ کیا ہے،جس سے امام قرطبی کا دلی رجحان بادیِ النظر میں یہی نظر آتا ہے کہ وہ بھی کسی حد تک نمازِ عصر ہی کے نمازِ وسطیٰ ہونے کے قائل ہیں،لیکن انھوں نے صحیح تر قول اسے قرار دیا ہے کہ وہ نماز غیر معیّن اور مبہم ہے،کیوں کہ اقوال کے دلائل متعارض ہیں اور ترجیح کی کوئی واضح صورت بھی نہیں۔[2] امام مسلم کا اختیار بھی یہی بتایا ہے اور صحیح مسلم،مسند عبد بن حمید،ابو داود فی الناسخ،تفسیر ابن جریر،سنن بیہقی،ابن حزم،مستدرک حاکم اور معانی الآثار طحاوی کی وہ حدیث بطورِ دلیل ذکر کی ہے،جس
Flag Counter