Maktaba Wahhabi

625 - 625
ابن عباس اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے(اگرچہ بعض دیگر اقوال بھی مروی ہیں لیکن) صحیح تر قول کے مطابق ان کے نزدیک بھی نمازِ عصر ہی ہے۔ تابعین میں سے حضرت عبیدہ،ابراہیم نخعی،زربن حبیش،سعید بن جبیر،ابن سیرین،حسن بصری،قتادہ،ضحاک،کلبی،مقاتل،عبید بن مریم اور دیگر حضرات رحمہم اللہ سے یہی نماز مروی ہے،جب کہ ائمہ و فقہاے مذاہبِ اربعہ میں سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور قاضی ما وردی کے بقول امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی اور ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے دو ارشد تلامذہ امام ابو یوسف اور اما م محمد رحمہما اللہ سے(اگرچہ دوسرے اقوال بھی مروی ہیں،لیکن) ان کے صحیح تر قول کے مطابق ان کے نزدیک بھی عصر ہی ہے اور حبیب مالکی رحمہ اللہ کا اختیار بھی یہی ہے۔[1] نمازِ فجر کہنے والوں کے دلائل اور ان کاجائزہ: نمازِفجر کو نمازِ وسطیٰ کہنے والوں نے جن روایات سے استدلال کیا ہے،ان میں سے کسی ایک بھی مرفوع،صریح اور صحیح روایت سے نمازِ فجر کے نمازِ وسطیٰ ہونے کا پتا نہیں چلتا،بلکہ وہ جتنی بھی روایات ہیں یا تو صحابہ رضی اللہ عنہم پر موقوف ہیں یا تابعین رحمہم اللہ کے آثار ہیں۔ امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بارہ روایات وہ ذکر کی ہیں،جو صحابہ رضی اللہ عنہم پر مو قوف ہیں،ان میں سے نو(9) توصرف ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہیں۔ایک روایت ابو عالیہ رحمہ اللہ نے صحابی کا نام لیے بغیر بیان کی ہے اور ایک عام صحابہ سے نام ذکر کیے بغیر نقل کی ہے۔ایک حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ان میں سے کسی روایت میں بھی یہ مذکور نہیں کہ یہ بات نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔[2] ہاں ایک تیر ھویں روایت سنن نسائی میں مرفوع بھی ہے،لیکن علامہ احمد شاکر کی وضاحت کے مطابق اس روایت کی سند کے صحیح ہونے اور اس کے مرفوع ہونے کے باوجود اس میں نمازِ وسطیٰ کے تعلق سے آخر میں جو تفسیری الفاظ ہیں،وہ پھر مو قوف ہیں،یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے الفاظ ہیں،نہ کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور تفسیر ابن کثیر میں حضرت ابن عمر و انس رضی اللہ عنہم کی طرف بھی ایسے اقوال منسوب ہیں۔[3]
Flag Counter